بحران نہیں، نارمل حالات

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2014
عمران خان اور طاہر القادری کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں، بلکہ اسلام آباد میں رکے رہنے ہی میں تو ان کی کامیابی ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں، بلکہ اسلام آباد میں رکے رہنے ہی میں تو ان کی کامیابی ہے۔

اب تو ہر چیز میں سازش کی بو سونگھ لینے والوں نے بھی ہار مان لی ہے۔ جب حقیقت سازش سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوجائے، تو کیا ضرورت ہے کہ سازش کا سراغ لگانے میں وقت ضائع کیا جائے۔

اب جب کہ یہ بحران ضرورت سے زیادہ طویل ہوگیا ہے، تو لوگ اس بات پر توجہ بھی نہیں دے پارہے، کہ شاید اکتوبر میں ایک ایسے شخص کی آمد ہو، جو شاید اس سب کے حل میں مددگار ہو؟ اور اس میں بھی اپنی ایک الگ کہانی موجود ہے۔

کیوںکہ اگر اس سب کی رہنمائی ظہیر کر رہے تھے، تو وہ تو اکتوبر میں اپنے گھر واپس جارہے ہیں، اور اس سب کو ختم ہوجانا چاہیے۔ لیکن اگر یہ سب راحیل کی وجہ سے ہورہا ہے تو؟

یہ سب صرف اندازے ہیں، جبکہ کہانی کا انجام کیا ہوگا، یہ اب بھی معلوم نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کو امید ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری آخر کار تھک کر گھر چلے جائیں گے۔ ظاہر ہے، کوئی بھلے کتنا ہی طاقتور ہو، کتنے دن تک ایسی سختیاں جھیل سکتا ہے؟

لیکن جب آپ کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نا ہو، تو اس بات سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان اور طاہر القادری کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ یہاں رکے رہنے ہی میں تو ان کی کامیابی ہے۔ جتنا زیادہ عرصہ ان کے حامی مظاہرین اسلام آباد میں موجود رہیں گے، تو ان کے لیے جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ لیکن اگر یہ دونوں حضرات گھر واپس چلے گئے، تو ناکامی یقینی ہے۔

اگر آپ عمران خان یا طاہر القادری ہوتے، تو کیا آپ گھر جاتے؟ اور گھر جاتے بھی تو کس بنا پر؟ اتنی لمبی اور تھکا دینے والی جدوجہد کا انعام، اور مطلوبہ مقصد تو شارع دستور کے دوسری طرف موجود ہے۔ گھر سے ایسا نظارہ ممکن ہی نہیں، اور نا ہی وہاں بیٹھ کر جیتنے کے امکانات ہیں۔

یا یہ ہوسکتا ہے کہ یہ دو لیڈر الگ الگ ہوجائیں۔ عمران خان روڈ پر موجود اپنے دھرنے کے ساتھ رہیں، اور طاہر القادری اس سے تھوڑا دور شارع دستور پر اپنے کچھ مایوس ساتھیوں کے ساتھ دھرنا جاری رکھیں۔

اس سے دلچسپی بھی قائم رہے گی، اور پریشر بھی بنتا رہے گا، جس سے عمران خان اور طاہر القادری کو شارع دستور نامی اس بند گلی سے نکلنے کا موقع مل سکتا ہے۔

اس سے یہ ہوگا، کہ ایک جیسے نظر آنے والے بحران میں کئی دوسرے رخ اور باب بھی شامل ہوجائیں گے۔ یہی ہوتا ہے جب آپ کے پاس کم کنٹرول، زیادہ منچلے، اور کم دماغ ہوں۔

اچھا اگر شکار کو مار ڈالنا "لڑکوں" کا ایجنڈا نہیں، تو پھر حاصل کرنے کے لیے اور کیا باقی رہ گیا ہے؟

کچھ بھی نہیں۔

تو پھر کیوں نا سب کچھ لپیٹ کر مظاہرین کو گھر بھیج دیا جائے، اور اندرونی طور پر غلبے کے مزے لیے جائیں؟

لیکن ایسا نہیں ہورہا۔

کیوں؟ ہوسکتا ہے کہ شکاری خود شکار کو اپنے آپ کو چھڑانے کا موقع دینا چاہ رہا ہو؟

جال بچھایا گیا، شکار جال میں پھنسا، اور جب سے شکار جال میں پھنسا ہے تب سے وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش میں ہے۔ اب وہ مکمل طور پر تھک چکا ہے، لیکن شکاری اسے باہر نکلنے میں مدد دینے کو بھی تیار نہیں ہے۔ شکار کو اب اپنی مدد خود کرنی ہوگی۔

یہ غیر ضروری بھی لگتا ہے۔ کیونکہ اگر شکار کو مار ڈالنے کے بجائے صرف اسے گرا کر اس کا مینڈیٹ چھین لینا ہی مقصد تھا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں دونوں ساتھ رہیں گے۔

لیکن یہ جتنے دن زیادہ چلے گا، یہ یادداشت میں اتنا ہی زیادہ محفوظ ہوتا جائے گا۔ زیادہ سزا اور بے عزتی سے شکار بالکل ٹوٹ بھی سکتا ہے۔

واقعی اگر شکار کا خاتمہ مقصد نہیں تھا، تو صرف اتنا مقصد تھا کہ نواز شریف کو انتہائی مشکل پوزیشن میں دھکیل دیا جائے جہاں وہ صرف اپنی جان بچانے کے لیے فکرمند ہوں۔ اور اس پوزیشن میں بھی کئی کام ہونے باقی ہیں، میٹنگز ہونی باقی ہیں، فیصلے لیے جانے باقی ہیں۔

قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی دنیا میں بہت کچھ رکھا ہے۔ معیشت، عوام، ریاست چلانے کے معاملات، تجوریاں بھرے رکھنا، اور یہ دیکھنا کہ کس کو کیا مل رہا ہے۔

یہ سب ہوسکتا ہے اگر نواز شریف کو جان بچانے کی فکر میں مبتلا کردیا جائے۔ لیکن کیا ہوگا اگر وہ اس سے باہر نکل کر کوئی انتہائی قدم اٹھا لیں تو؟ پریشر بنائے رکھ کر یہ رسک کیوں لیا جارہا ہے؟

بحران کے بعد بحران کسی بھی صورت میں اچھی بات نہیں، "لڑکوں کے لیے بھی نہیں"۔ اگر آپ نے انہیں چت نہیں کردینا تھا، تو کیوں نا ان کی جانب ہاتھ بڑھا کر انہیں اکھاڑے سے باہر کھینچ لیا جائے، جبکہ آپ جیت بھی چکے ہیں؟

انہیں اپنے زخموں پر مرہم کرنے دیں، لیکن اب ان کے زخموں میں اضافہ نا کریں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب کچھ تھوڑا سا کام ایسا رہ گیا ہے، جو ایک غنڈے کی خصوصیت تو ہوسکتی ہے، لیکن جنگجو کی نہیں۔

لیکن اگر شکار کو مار ڈالنا ہی مقصود ہے، تو بڑھیے زخمی شکار نواز شریف کی جانب۔

پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت کے محافظ کے طور پر نواز شریف ایسی شخصیت ہیں، جن کے ساتھ ہم سب کو ہمدردی کرنی چاہیے، کیونکہ اگر وہ جیتے، تو ہم سب جیتیں گے۔ اگر وہ ہارے، تو ہم سب ہاریں گے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب بھی نواز شریف سمجھے نہیں ہیں، ان کے اتحادی بھی حیرت سے تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو دیکھ کر حیران ہیں کہ یہ کیوں نہیں سمجھ پارہے۔

ایسا نہیں ہے کہ نواز شریف ایک ایسے جال میں پھنس چکے ہیں، جس سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ بلکہ ایسا ہے کہ نکلنے کے راستے ان کے سامنے موجود ہیں لیکن وہ انہیں پہچان نہیں پارہے۔

آپ پچھلے ہفتے کے اختتام پر دیکھ تو چکے ہیں کہ کیسے انہوں نے پارلیمنٹ میں تقریر کی، لیکن "کچھ" کہا نہیں، کوئی روڈ میپ نہیں، کوئی پلان نہیں، کوئی رعایتیں وغیرہ نہیں، صرف باتیں۔

وہ کیا کہہ سکتے تھے؟

وہ وزیر اعظم ہیں ان کے پاس آپشن ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کیا کہنا ہے۔

یا شاید انہیں نہیں معلوم ہونا چاہیے۔ شاید اس وجہ سے کہ بات واقعی تمام کوششوں کے باوجود ان کی سمجھ سے باہر ہے۔

لیکن جب انہیں پکا معلوم ہو کہ شکار کو مار ڈالنا ہی پلان تھا، اور ہے،

تو اس صورت میں نواز شریف کچھ بھی چھوڑنے کے لیے راضی نہیں ہوں گے، اور اپنے دشمنوں کو چیلنج کیے جارہے ہیں کہ یا تو ان کو باہر نکال کر دکھائیں، یا ان کے ساتھ رہیں۔

ان تمام امکانات کو ایک ساتھ رکھیں، اور ایک افسردہ تصویر سامنے آتی ہے۔ "لڑکے" جیت جانے کے باوجود رحمدل نہیں ہونا چاہتے، نواز شریف ہار جانے کے باوجود معاف نہیں کرنا چاہتے، اور عمران خان اور طاہر القادری سسٹم کی فکر کیے بغیر طاقت حاصل کرنے کو بیتاب ہیں۔

اور اس طرح ہم باریکیوں میں الجھتے ہی جارہے ہیں، اور معانی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ کوئی معانی، کوئی اختتام، کوئی انجام موجود نہیں ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ٹوئیٹر پرcyalm@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Sep 25, 2014 12:18pm
Imran Khan is patriotic brave man and his all statements are true and reality but, unfortunately he met Dr. Qadari and spoiled his strategy. In Pakistan, majority of people like western countries’ rules and regulation and they want to live there but, why we don’t want make our country like that or better than that? I think Imran Khan is doing right. Out of Pakistan if you see where we are and what is our value/respect is as nation.