نیا بمقابلہ پرانا پاکستان

05 نومبر 2014
پالیسی کی تبدیلی اشد ضرورت کے حوالے سے واضح ہٹ دھرمی کا رویہ اسلام آباد کے حکمرانوں کی ناکامی کا باعث بنا۔
پالیسی کی تبدیلی اشد ضرورت کے حوالے سے واضح ہٹ دھرمی کا رویہ اسلام آباد کے حکمرانوں کی ناکامی کا باعث بنا۔

کیا آئی ایس وہ بدترین چیلنج ہے جس کا نواز شریف سامنا کررہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو پاکستان بھر کے سیاسی حلقوں میں طاہر القادری کے اسلام آباد کے 'دھرنے' کے بعد پارلیمنٹ کے باہر واحد مخالف رہنماءکی حیثیت سے چھوڑ کے چلے جانے کے بعد گردش کررہا ہے۔

مگر 2013 میں نواز شریف کی سیاسی کامیابی کے بعد سیاست کی صورتحال کا قریبی جائزہ لینے کے بعد زیادہ خدشات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

پاکستان کی فوج کے اندرونی حلقوں میں پائے جانے والے خیالات کی بناءکر کچھ عرصہ قبل فوج کو حکمران سیاستدانوں کو ناکامی کا بتاکر ذمہ داری لینے مشورہ دینا پڑا۔

مثال کے طور پر اسلام آباد کی سیاسی راہداریوں میں کئی ہفتوں تک یہ قیاس آرائیاں گردش کرتی رہیں کہ آخر کون طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کا چارج سنبھالے گا، اگرچہ یہ ادارہ پاکستان کے سیکیورٹی مقاصد کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے مگر کسی پروموٹیڈ ملٹری مین کی قیاس آرائیاں سامنے آرہی تھیں۔

اسی پرانے پاکستان میں خوش آمدید، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے اقتدار چھوڑ کر جانے کے چھ سال سے زائد عرصے بعد بھی پاکستان کی حکمران اشرافیہ تاحال ماضی کی اسی روایت کی اسیر ہے جس میں سیاسی اقتدار پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو غلبہ حاصل تھا۔

گزشتہ برس کے دوران حکمران سیاستدان اس وقت حتمی طور پر دلیرانہ نقش قائم کرنے میں ناکام رہے جب انہیں منتخب عوامی نمائندگان کی حیثیت سے موقع حاصل تھا۔

اس کے مقابلے میں پالیسی کی تبدیلی اشد ضرورت کے حوالے سے واضح ہٹ دھرمی کا رویہ اسلام آباد کے حکمرانوں کی ناکامی کا باعث بنا۔

کیا کوئی بھی اس بات پر حیران ہوسکتا ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے نقش قدم تاحال سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے اہم امور پر مضبوطی سے موجود ہیں، یہ وہ دو شعبے ہیں جہاں سیاستدان ورچوئلی ذمہ داری اٹھانے سے گھبراتے ہیں؟

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فوجی حکمرانی سے سویلین تک اقتدار کی منتقلی کوئی قابل ذکر مثال قائم نہیں کرسکی، ایسی بازگست بڑے پیمانے پر دیگر شعبوں میں بھی سنی جاسکتی ہے۔

آگے بڑھنا اس وقت بمشکل ہی کسی کے لیے حیرت کا باعث بن سکتا ہے جب پاکستانی معاشرہ جمہوری کلچر سے بغل گیر ہورہا ہے، اس کے لیے ہمیں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی نمایاں موجودگی اور سول سوسائٹی کے کردار میں بہتری ہے، تاہم اسلام آباد کی سیاسی راہداریوں میں تبدیلی کا احساس زیادہ واضح نہیں۔

درحقیقت پاکستان کو آج جس بحران کا سامنا ہے اس کے لیے اہم شعبوں میں صرف بے مثال قومی اتحاد سے کام نہیں چلے گا بلکہ تبدیلی اسی صورت میں آسکتی ہے جب اسلام آباد کے سیاسی ماسٹرز پس پشت تبدیلی کے ایجنٹوں کو پیچھے چھوڑ کر تبدیلی کی قیادت کریں، پاکستان کو سنبھالنے کے لیے ان کی اہلیت اور طویل المعیاد استحکام کا احساس ہی سیکیورٹی غلبے کی فضاءکو صاف کرسکتا ہے۔

اور ابھی بھی جب وزیراعظم اپنے ماضی کے اسیر بنے ہوئے ہیں، حکومت نے سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے موقعوں سے فائدہ اٹھانے سے انکار کردیا ہے، جو ناکامی کی جانے ہی لے جاسکتا ہے کیونکہ اس سے ذاتی انتقام کو پس پشت ڈالنے اور نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے اشد ضروری اقدامات کو سراہنے جیسے عمل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

اس تنازعے کے ساتھ دیگر ناکامیاں بھی پاکستان کے بہتر اور نئے تصور میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں، اس سے پاکستان میں سیاسی پیشرفت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے جو تاحال کمزور جمہوری نظام میں پھنسی ہوئی ہے۔

اس کے مقابلے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے کامیابیوں کے دعوﺅں کے باوجود اقتصادی بحالی کے آثار نظر نہیں آرہے اور زمینی حقائق ان تضادات کو واضح کردیتے ہیں۔

اسلام آباد میں حکمران سیاستدان اپنے اقتدار کے پہلے سال کے دوران پارلیمنٹ میں عوامی مفادات سے متعلق معاملات میں جامع بحث کرانے میں بھی ناکام رہے۔

اگرچہ سرکاری طور پر نئے انفراسٹرکچر منصوبوں کی متعدد کہانیوں کی مثالیں موجود ہیں مگر پاکستان کے تعلیمی شعبے یا بحران کے شکار عوامی صحت کے شعبے کے لیے درکار اصلاحات قومی سطح کی کوششوں بہت کم نظر آتی ہیں۔

یہ معاملات ناصرف حکمران طبقے کے اسٹرکچر کے ٹریک ریکارڈ میں موجود خلا کو واضح کرتا ہے بلکہ یہ نمایاں طور پر پالیسی کو درست سمت میں لے جانے میں ناکام رہنے کا نکتہ بھی واضح کرتا ہے وہ بھی اس وقت جب پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم اور ملکی مضبوطی کو بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔

اسی اثناءمیں عوامی سطح پر ملک بھر میں پائے جانے والی سیاسی بے چینی اتنی واضح ہے کہ جو کہ پاکستان کو چلانے کے انداز کو مسترد کیے جانے کی واضح علامت ہے۔

سیاسی سرگرمیوں کی بڑھتی شدت جیسے اسلام آباد میں جاری 'دھرنا' صرف اس سوال کو زیربحث لاتا ہے: کیا وسط مدتی انتخابات کے لیے اسٹیج سج گیا ہے؟ متعدد افراد کے لیے یقیناً طویل المدتی پریشان کن سوال ہے جو ایک بار پھر ان کے سامنے آگیا ہے۔

گزشتہ برس کے دوران حکمران اسٹرکچر کے غیرمتاثر کن ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی اس بات پر حیران ہوسکتا ہے کہ عوام کے بیشتر سیکشنز کے ذہن میں یہی خیال گردش کررہا ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہی وہ واحد ادارہ ہے جو پاکستان کو اکھٹا رکھ سکتا ہے؟

پاکستان میں مشکل سے حاصل کی جانب والی جمہوریت کی قسمت کے لیے زیادہ بڑا المیہ کیا ہوگا یہ ایک جائز سوال ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں