افغانستان میں انڈیا کے ساتھ پراکسی وارکا خطرہ ، پرویز مشرف

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2014
سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف —۔فائل فوٹو/ اے ایف پی
سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف —۔فائل فوٹو/ اے ایف پی
سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف انٹرویو کے دروان خوشگوار موڈ میں —۔ فوٹو/ اے ایف پی
سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف انٹرویو کے دروان خوشگوار موڈ میں —۔ فوٹو/ اے ایف پی

کراچی: سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ افغانستان سے نیٹوافواج کا انخلاء پاکستان اور ہندوستان کو پراکسی وار کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں 1999 میں اقتدار میں آنے والے اکہتر سالہ پرویز مشرف نے نئے افغان صدر اشرف غنی کی بھی تعریف کی جنھوں نے گزشتہ ہفتے پاکستان کا پہلا دورہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں برس امریکا کی اتحادی نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء مکمل ہو جائے گا، ایسے وقت میں افغانستان میں قیامِ امن کے کے لیے پاکستان کی حمایت بہت ضروری ہے۔

پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ 'پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی کو ختم کرنا ضروری ہے تاکہ افغانستان میں امن قائم کیا جا سکے'۔

کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے سابق صدر نے کہا کہ 'افغانستان میں ہندوستان کا عمل دخل پاکستان کے لیے خطرہ ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک مزید خطرہ ہے کیوں کہ ہندوستان ایک اینٹی پاکستان افغانستان بنانا چاہتا ہے'۔

یاد رہے کہ تقسیم ہند کے بعد سے ایٹمی طاقت کے حامل دونوں پڑوسی ممالک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین جنگیں لڑی جاچکی ہے جبکہ متعدد بار چھوٹی جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں تاہم 1998ء میں دونوں ممالک کی جانب سے نیوکلئیر ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے بعد سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

حالیہ چند ہفتوں کے دوران ہندوستان کی جانب سے پاکستانی سرحدی علاقے میں فائرنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور متعدد بار دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان اور ہندوستان نے ایل او سی سیز فائر معاہدے 2003ء کی پاسداری کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، لیکن اس کے باوجود اس قسم کے واقعات رک نہیں سکے ۔

سرحدی کشیدگی کے علاوہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر افغانستان میں پراکسی وار کے الزامات بھی عائد کرتے رہتے ہیں۔

ہندوستان ، شمالی افغانستان کے تاجک گروپوں کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ پاکستان کے روابط زیادہ تر افغانستان کے جنوب اور مشرق میں بسنے والے پشتونوں کے ساتھ ہیں ۔

اپنے انٹرویو میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ 'انڈیا افغانستان کے کچھ نسلی عناصر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، تو پاکستان بھی وہاں اپنے نسلی عناصر استعمال کرے گا اور وہ یقیناً پشتون ہوں گے'۔

'ہم افغانستان میں پراکسی وار کا آغاز کر رہے ہیں تاہم اس سے گریز کرنا چاہیے'۔

پرویز مشرف نے ہندوستان پرجنوبی افغانستان میں قائم کیمپوں کے ذریعے پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں علیحدگی پسند قوم پرستوں کی حمایت کا بھی الزام لگایا۔

واضح رہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے اکثر وبیشتر پاکستان پرطالبان کی سپورٹ کا الزام لگایا جاتا تھا، تاہم پاکستان کی جانب سے ان الزامات کو ہمیشہ مسترد کیا گیا۔

پرویز مشرف نے حامد کرزئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا افغانستان نے اپنے آفیشلز کو پاکستان کے بجائے ہندوستان میں ٹریننگ کے لیے بھیجا، یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں حکمت عملی کی مشکلات کو بڑھاتی ہیں۔

اگرچہ وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی کی حالیہ ملاقات میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ان کے تین دن کے دورے میں تیرہ سال کے اختلافات ختم ہو گئے ہیں۔

تاہم سابق صدر پرویزمشرف نے خبردار کیا ہے کہ 'اگر نیٹو افواج پاکستان سے چلی گئیں تو روایتی حریفوں کے مابین جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے'۔

انھوں نے گیارہ ستمبر حملوں کے بعد امریکا کے ساتھ جنگ میں ساتھ دینے کے اپنے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 'امریکا کی اتحادی افواج جنھوں نے افغانستان کو طالبان سے پاک کرنے کی کوشش کی، درحقیقت پشتونوں کے مقابلے میں تاجکوں کو اقتدار منتقل کرنے سے ملٹری فتح کو سیاسی فتح میں تبدیل کرنےمیں ناکام ہو چکی ہیں'۔

انٹرویو کے دوران پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ 'پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی دھرنوں نے ہر کسی کو ہلا دیا ہے'۔

'لوگ اب تبدیلی کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ میرے ذہن میں اس حوالے سے کوئی شکوک و شبہات نہیں ہیں اور نہ ہی کسی کے ذہن میں ہونے چاہئیں کیونکہ پاکستان کے عوام نہایت شدت سے تبدیلی کے خواہش مند ہیں'۔

سابق صدر پرویز مشرف مارچ 2013 میں اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان آئے تھے، تاکہ مئی میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لے کر ملک کو نہ صرف طالبان سے بچا سکیں بلکہ تباہ حال معیشت کو بھی سہارا دے سکیں۔

تاہم انھیں نہ صرف انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا، بلکہ نظر بندی سمیت بہت سے مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

سابق صدر پرویز مشرف دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اہم اتحادی تھے، تاہم آج کل وہ سخت سیکیورٹی میں کراچی میں اپنے گھر میں مقیم ہیں۔

پرویز مشرف کو نہ صرف کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے دھمکیوں بلکہ کافی مقدمات کا بھی سامنا ہے، جن میں سے بیشتر کا تعلق 2008 میں اختتام پذیر ہونے والے ان کے قریباً ایک دہائی پر مشتمل دورِ اقتدار سے ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

MALIK Nov 18, 2014 11:33pm
Kaash is sakhs ki salahiat se faida uthaya jata.