اسلام آباد: ایک طرف جہاں عسکری عدالتوں کے قیام پر تنازع جاری ہے، تو دوسری جانب فوج نے پہلے ہی اپنا قانونی محکمہ مضبوط بناتے ہوئے 'ڈائریکٹر جنرل لاء فیئر ڈائریکٹوریٹ' کے نام سے نیا عہدہ بنا دیا۔

اس حوالے سے فوجی حکام نے قانون کی ڈگری رکھنے والے آرمی افسران کی معلومات اکھٹی کرنا شروع کر دی ہے۔

قانونی محکمہ کو مضبوط بنانے کا عمل پچھلے تین مہینوں سے جاری ہے۔

میجر جنرل محمد ارشاد کو ڈی جی (لیگل ڈائریکٹوریٹ) تعینات کر دیا گیا ہے، جنہوں نے 28 دسمبر کو اپنا عہدہ سنبھال لیا۔

گزشتہ سال ستمبر کے دوسرے ہفتہ عسکری حکام نے 'پاکستان فوج کو درپیش قانونی چیلنجوں اور مستقبل' کے موضوع پر ایک 'ان ہاؤس' بحث کا انعقاد بھی کیا، جس میں فوج کے لیگل ڈائریکٹوریٹ (ایل ڈی) کو اپ گریٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

نئی تبدیلیاں آنے سے پہلے ایل ڈی کی سربراہی بریگیڈئیر سطح کا ایک افسر 'جج ایڈوکیٹ جنرل' کرتا تھا اور اس کی ذمہ داریوں میں ادارے کے اندر اور شہری عدالتوں میں فوج سے متعلق قانونی امور کی دیکھا بھال کرنا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ستمبر میں ہونے والے مباحثے کی سربراہی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کی تھی جبکہ شرکاء میں چیف آف جنرل اسٹاف، ڈائریکٹر جنرل (ملٹری انٹیلی جنس)، جیگ اورڈائریکٹر (ملٹری انٹیلی جنس) وغیرہ شامل تھے۔

مباحثے میں جنرل راحیل نے 'ڈائریکٹر جنرل کی زیر قیادت ایک نئے لاء فیئر ڈائریکٹوریٹ (ایل ڈی) کی باقاعدہ منظوری دی تھی'۔

اس کے علاوہ ملاقات میں 'اگلے دو- تین مہینوں کے اندر اندر مجوزہ ایل ڈی کی نگرانی اور جائزہ کیلئے فوری طور پر ایک ڈی جی کی منظوری بھی دی گئی'۔

ملاقات میں سویلین وکلاء کو محکمہ میں شامل کرنے اور ماہانہ بنیادوں پر نئے محکمہ کا جائزہ لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عسکری قیادت نے اوپر بیان ہونے والے تمام فیصلے ستمبر میں کیے اور پھر دسمبر میں سانحہ پشاور کے بعد فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ سامنے آ گیا۔

تاہم، عسکری حکام ستمبر میں ہونے والے فیصلوں اور فوجی عدالتوں کے درمیان کسی قسم کے تعلق کو مسترد کرتے ہیں۔

فوجی عدالتیں قائم ہونے کی صورت میں ادارے کی جیگ برانچ پر کام کا دباؤ بڑھ جائے گا۔

آئی ایس پی آر کے ایک عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ نیا ایل ڈی جیگ برانچ کی موجودہ صلاحتیوں کو مزید تقویت دینے کیلئے قائم کیا گیا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ صلاحیت میں اضافہ کیلئے اٹھائے گئے اقدامات پر قانون سازی ضروری ہے۔

فوج کی جیگ برانچ میں خدمات سر انجام دینے والے کرنل (ر) انعام الرحمن نے ڈان کو بتایا کہ نئے ایل ڈی کیلئے 1952 کے پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے)میں ترمیم کرنا ہو گی۔

انہوں نے بتایا کہ پی اے اے کے تحت جیگ برانچ فوج سے متعلق قانونی معاملات سنبھالتی ہے۔

'اسسٹنٹ جیگ فوجی عدالت میں کسی بھی مقدمہ کا قانونی عمل شروع کرتا ہے، ڈپٹی جیگ مقدمہ چلاتا ہے اور پھر یہ مقدمہ جیگ کے پاس چلا جاتا ہے'۔

'جیگ آرمی چیف کو قانونی رائے دیتا ہے تاکہ وہ اس متعلقہ قانونی معاملہ پر کوئی فیصلہ کر سکیں'۔

انہوں نے بتایا 'چونکہ ڈی جی ایل ڈی ایک نیا عہدہ ہے لہذا حکومت کو پی اے اے میں ترمیم کرنا ہو گی'۔

دوسری جانب، قانونی ماہر احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ نیا عہدہ قائم کرنے کیلئے پی اے اے میں کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔

'یہ فوجی افسران کی صلاحیت بڑھانے کیلئے لیگل ڈائریکٹوریٹ کو اپ گریڈ کرنے کا معاملہ ہے اور اس میں کوئی ترمیم ضروری نہیں'۔

انہوں نے بتایا کہ فوج نے موجودہ طور طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کیونکی دنیا بھر میں ملکوں نے اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے 'وار فیئر' سوچ کی جگہ 'لاء فیئر' سوچ اپنا لی ہے۔

انہوں نے 2008 میں ممبئی حملوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے ردعمل میں پاکستان پر حملہ کے بجائے لاء فیئر کا انتخاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور امریکا میں حملہ کے ذمہ داروں کے خلاف پابندیاں لگوانے کیلئے لابنگ کی۔

نئی دہلی نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ یو این کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 1373 پر عمل کرتے ہوئے حملہ کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

احمر بلال کے مطابق 'لاء فیئر' ایک نیا نظریہ ہے جسے دوسرے محکمہ مثلاً وزارت خارجہ بھی اپنا سکتے ہیں۔

'فوج لاء فیئر ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ اپنے سٹریٹیجک اہداف کا تحفظ کر سکتی ہے'۔

'مثلاً، اگر سیکورٹی اداروں کو معلوم ہوتا ہے کہ سانحہ پشاور کے تانے بانے افغانستان سے جڑے ہیں تو ایسے میں دو طریقے ہیں یا تو ہم طاقت استعمال کریں یا پھر قانون استعمال کریں'۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی صورتحال میں بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ پہلے ایک ایف آئی آر درج کرائی جائے، پھر عدالت میں چالان جمع ہو اور بعد میں متعلقہ ملک اور عالمی برادری کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں