ایک افسوسناک دن

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2015
وزیرِ اعظم نواز شریف وزیرِ اعظم ہاؤس اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کی صدارت کر رہے ہیں۔ 2 جنوری 2015 — پی پی آئی/فائل
وزیرِ اعظم نواز شریف وزیرِ اعظم ہاؤس اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کی صدارت کر رہے ہیں۔ 2 جنوری 2015 — پی پی آئی/فائل
پارلیمانی رہنماؤں کی میٹنگ میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی موجود ہیں — فوٹو بشکریہ وزیرِ اعظم ہاؤس فیس بک پیج
پارلیمانی رہنماؤں کی میٹنگ میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی موجود ہیں — فوٹو بشکریہ وزیرِ اعظم ہاؤس فیس بک پیج

آخرکار ہماری سیاسی قیادت ملکی نظام کی آئینی اور جمہوری بنیادوں کو بچانے، اور جنرلوں کے مطالبات مسترد کرنے میں ناکام ہوگئی۔

پاکستان میں ایک بار پھر فوجی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ ان کے قیام کے لیے سیاستدان طاقتوں کے درمیان علیحدگی کے اصول کو ختم کرنے، اور ان بنیادی حقوق کا انکار کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں جن پر پورے آئین کی عمارت موجود ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاستدانوں نے تباہ حال اداروں کی تعمیرِ نو سے صاف انکار کردیا ہے۔

ہاں عسکریت پسندی سے لڑنے کے لیے ایک منظم حکمتِ عملی، اور سیاسی و فوجی قیادت میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے، لیکن فوجی عدالتیں اس بات کا جواب نہیں ہیں۔

سب سے پہلے، اس بات پر کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ملک پر فوجی عدالتوں کے سائے کیوں چھانے لگے ہیں: صرف اس لیے کہ فوجی قیادت ایسا چاہتی تھی۔

پڑھیے: فوجی عدالتوں کا قیام:آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش

کل ہی آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل راحیل شریف نے اسلام آباد میں کثیرالجماعتی کانفرنس کو بتایا کہ 'فوجی عدالتیں فوج کی خواہش نہیں، لیکن غیر معمولی حالات کا تقاضہ ہیں۔'

آئی ایس پی آر کے مطابق ایک روز قبل انہوں نے کور کمانڈرز میٹنگ میں بتایا کہ 'سخت اور معنی خیز فیصلوں' کی ضرورت ہے تاکہ 'دہشتگردوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف سخت ایکشن' یقینی بنایا جاسکے اور 'وسیع تر سیاسی ہم آہنگی' 'چھوٹے مسائل' کی نذر نہیں ہونی چاہیے۔

جب ایک فوجی سربراہ اتنے کھلے الفاظ میں سیاسی مرحلے پر ہدایات جاری کر رہا ہو، تو یہ جمہوریت کے لیے ایک افسوسناک دن ہے۔

دوسرا، آئین میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار و استحقاق ہے، اور ججز تعیناتی کے معاملے پر افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے درمیان تنازع کے بعد آئین کے بنیادی اسٹرکچر کے تصور کو ایک نئی زندگی ملی، اس لیے اس بات کی امید تھی کہ ایک جمہوری نظام میں پارلیمنٹ سویلین اداروں کی اہمیت کو کم نہیں سمجھے گی، اور نہ ہی اس ادارے کو مزید طاقت و اختیار دے گی جو ماضی میں کئی بار آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال چکا ہے۔

ویڈیو: خصوصی عدالتیں پاک فوج کی خواہش نہیں،آرمی چیف

سویلین حکومتوں میں کی جانے والی گذشتہ آئینی ترامیم فوجی ڈکٹیٹرز کی جانب سے آئین میں کی گئی من مانی کو درست کرنے کے لیے لائی گئی تھیں۔ لیکن اس دفعہ سویلینز ہی ہیں جو فوج کو مزید طاقتور بنا رہے ہیں۔ اکیسویں آئینی ترمیم ہمیشہ سویلین جمہوری نظام سے بے وفائی کی یادگار کے طور پر قائم رہے گی۔

تیسرا، حکومت اور پارلیمنٹ کو موجودہ قانونی نظام اور عدالتی مراحل ہنگامی بنیادوں پر درست کرنے سے خود پارلیمنٹ اور حکومت کے علاوہ کسی بھی چیز نے نہیں روکا ہے۔

فوجی عدالتوں پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے جو وقت اور توانائی لگائی گئی ہے، اگر وہ نظامِ انصاف کو درست کرنے کے لیے فوری اصلاحات اور انتظامی اقدامات پر لگائی گئی ہوتی، تو موجودہ سسٹم دہشتگردی سے نمٹنے جتنا طاقتور بنایا جاسکتا تھا۔

افسوس کی بات ہے کہ سیاسی قیادت اپنی جمہوری ذمہ داریوں سے دستبردار ہوگئی ہے۔ ہتھیار ڈالنا شاید آسان کام ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 جنوری 2015 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں