پیرس حملے میں ملوث بھائیوں کو ہلاک کردیا گیا

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2015
فرانسیسی پولیس نے سیاسی رسالے کے دفتر پر حملے میں ملوث 32 اور 34 سالہ کوآشی برادران کی تلاش میں سرچ آپریشن کا آغاز کر رکھا ہے—۔فوٹو/ اے پی
فرانسیسی پولیس نے سیاسی رسالے کے دفتر پر حملے میں ملوث 32 اور 34 سالہ کوآشی برادران کی تلاش میں سرچ آپریشن کا آغاز کر رکھا ہے—۔فوٹو/ اے پی
ایک حملہ آور  گاڑی سے اتر کر فائرنگ کر رہا ہے— ویڈیو سکرین گریب
ایک حملہ آور گاڑی سے اتر کر فائرنگ کر رہا ہے— ویڈیو سکرین گریب

پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک رسالے کے دفتر میں حملہ کرنے اور اس دہشت گردی کے واقعے کے دوران 12 افراد کو قتل کرنے والے دو بھائیوں نے جمعے کے روز ملک کے شمال مشرقی علاقے میں ایک شخص کو مغوی بنالیا تاہم سیکورٹی فورسز کی کارروائی کے بعد دونوں بھائیوں کو ہلاک کردیا گیا۔

فرانسیسی حکام کے مطابق سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں دونوں مسلح افراد کو ہلاک کردیا گیا ہے جبکہ مغوی کو بھی بازیاب کروالیا گیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ واقعہ پیرس سے 12 کلو میٹر دور ڈیم مارٹن انگول کے علاقے میں پیش آیا تھا۔

اس سے قبل ایک امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ فرانسیسی جریدے پر حملے میں ملوث مطلوب دو بھائیوں کو پہلے ہی امریکی حکام نے نو فلائی لسٹ میں شامل کررکھا تھا۔

یاد رہے کہ امریکی نو فلائی لسٹ میں دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے پی نے ایک امریکی عہدیدارکے حوالے سے بتایا ہے کہ دونوں ملزمان میں سے بڑا بھائی کو آشی یمن کا سفر کر چکا ہے تاہم اس بات کی وضاحت نہیں ہوسکی کہ اس نےالقاعدہ جیسے کسی شدت پسند گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی یا نہیں۔

یہ تفصیلات اُس وقت سامنے آئیں جب فرانسیسی پولیس نے 32 اور 34 سالہ کوآشی برادران کی تلاش میں سرچ آپریشن کا آغاز کیا۔

ملزمان کو بڑے بھائی کے شناختی کارڈ سے پہچانا گیا جو کار گیٹ وے کے قریب سے ملا تھا۔

دونوں بھائیوں نے بدھ کے روز پیرس میں واقع توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے حوالے سے معروف رسالے کو نشانہ بنایا جس کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

چارلی ہیبدو نامی رسالے نے 2011 میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے توہین آمیز خاکے اپنے سرورق پر شائع کیے تھے جس کے بعد اس کے دفتر پر فائربموں کے ذریعے حملہ بھی کیا گیا تھا جب کہ گذشتہ ہفتے اس میگزین نے داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کے حوالے سے ٹوئٹ کی تھی۔

شریف کوآشی پر 2008 میں عراق میں عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے پر فرد جرم عائد کر کے 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سال 2008 میں اپنے کیس کی سماعت کے دوران شیرف نےعدالت کو بتایا کہ وہ ٹی وی پر امریکی ابو غریب جیل میں عراقی قیدیوں کے ساتھ پُرتشدد سلوک کی تصاویر دیکھ کر غم وغصے کا شکار ہوگیا تھا۔

فرانس کی یونیورسٹی کے ایک ریسرچر کے مطابق تیونسی نژاد فرانسیسی شہری شیرف کوآشی جو کہ 2013 میں تیونس کے دو سیاسی رہنماؤں کے قتل میں ملوث ہے، ممکنہ طور پر چارلی ہیبدو حملوں میں ملوث ہوسکتا ہے اور شیرف کا تعلق مبینہ طور پر عراق اور شام کی عسکریت پسند تنظیم سے ہے۔

سیاسی رسالے کے دفتر پر فائرنگ کرنے والے ایک حملہ آور 18 سالہ [حمید مراد][2] نے گزشتہ روز ازخود گرفتاری دے دی تھی، جبکہ پولیس کی جانب سے دیگر دو حملہ آور بھائیوں کی تلاش جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں