فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

میری آنکھوں کو درخت زیادہ چاہئیں ---- وہ اتنے پرامید ہوتے ہیں، اتنے سرسبز و شاداب ---- ناظم حکمت ( 1948)


بحران؟ کیسا بحران؟ یہ تھا ترکی کے وزیر اعظم کا ردعمل جب وہ پچھلے ہفتے شمالی افریقہ کے پہلے سے طے شدہ دورے پر روانہ ہوئے-

دورے کی منسوخی یا التوا ریسپ طیپ اردگان کی نظر میں کمزوری کی نشانی ہوتا جو ظاہر ہے کہ ان غیر متوقع چیلنجز کو مناسب طور پر تسلیم کرنے کے بالکل موڈ میں نہ تھے جو ملکی سطح پر رونما ہورہے ہیں-

انہوں نے پچھلے ہفتے کے تیزی سے پھیلتے ہوئے احتجاج کو جو استنبول اور انقرہ سے شروع ہو کر درجنوں چھوٹے شہروں میں بھی پھیل گئے تھے یہ کہکر مسترد کردیا کہ یہ انتہا پسندوں کی قیادت میں شورش پسندوں کی کارروائی ہے-

انہوں نے کسی ملک کا نام لئے بغیر اسے ایک سنگین نوعیت کی بیرونی مداخلت قرار دیا اور اپنے احتجاجات کوجواز فراہم کرنے کیلئے جدید مواصلاتی نظام کواس کا ذمہ دار قرار دیا-

"ٹویٹرایک بدترین مصیبت ہے"، انہوں نے بلا تامل کہا، "یہاں آپ کو جھوٹ کا پلندہ مل جائیگا- میں سوشل میڈیا کو سماج کیلئے سب سے بڑا درد سر سمجھتا ہوں-"

یہی بات اگر حسنی مبارک نے 2011 کے اوائل میں کہی ہوتی تو اردگان کبھی اس کو تسلیم نہیں کرتے گو کہ سوشل میڈیا کو اس عوامی بغاوت کا محرک سمجھا گیا تھا جس نے آگے چل کر "عرب اسپرنگ" کی شکل اختیارکرلی، اردگان ترکی کومشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کیلئے مثالی نمونہ قرار دے رہے تھے-

بلاشبہہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر تقسیم اسکوئر کو من و عن تحریر اسکوئر نہیں کہا جاسکتا- لیکن پھر بھی کچھ مشابہتیں موجود ہیں-

یقینا ترکی میں اس قسم کی آمریت نہیں ہے جو حسنی مبارک کے تیس سالہ دور حکومت میں مصر میں قائم ہوگئی تھی. اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) مسلسل تین انتخابات جیت چکی تھی جو واضح طور پر شفاف تھے-

اس کے باوجود وزیر اعظم کا آمرانہ رویہ روز افزوں طور پر نظر آنے لگا تھا اور ایک نئے آئین کو متعارف کرانے کی ان کی کوششیں، جس کے نتیجے میں صدارتی نظام کی ابتدا ہوتی اور اگلے سال براہ راست انتخابات کے نتیجے میں وہ حکومت کے انتظامی سربراہ کی جگہ سربراہ ریاست بن جاتے- یہ بھی دس سالہ دور حکومت کے بعد ان کی جانب عوام کی بڑھتی ہوئی سراسیمگی کی ایک وجہ ہے-

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ترکی میں حالیہ عرصے میں ٹویٹر اہم خبریں حاصل کرنے کا ذریعہ اس لئے بھی بن گیا کہ قومی میڈیا پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے.

اطلاعات کے مطابق استنبول کی سڑکوں پر جس وقت پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے سفاکی سے کام لے رہی تھی ٹیلی ویژن چینل کھانے پکانے کا پروگرام دکھا رہے تھے اور وسیع معنوں میں اخبارات بھی تقسیم ہیں-

ایک طرف تو وہ اخبارات ہیں جو اے کے پی کے اتحادیوں اور ان کے حواریوں کی ملکیت ہیں اور دوسری طرف وہ اخبارات ہیں عادتاً خود پر سنسرشپ عائد کرلیتے ہیں کیونکہ حکمرانوں کی جانب سے انھیں باقاعدہ ڈرایا دھمکایا جاتا ہے-

گزشتہ سال نیویارک میں قائم صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے اکسٹھ صحافی جیل میں ہیں ---یہ تعداد ایران اور چین میں قید صحافیوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے--- اور ترکی کے پریس کی آزادی کی تنظیموں کے مطابق 2011 کے اواخر تک صحافیوں کے خلاف پانچ ہزار مقدمات قائم تھے-

گزشتہ ہفتے جو مظاہرے ہوئے وہ نسبتاً چھوٹے بھی تھے اور پر امن بھی اور اس منصوبے کے خلاف کئے گئے تھے جس کے تحت گیزی پارک میں 606 درختوں کو جڑوں سے گرایا جا رہا تھا- اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ پارک استنبول کے چند رہے سہے سرسبزو شاداب باغوں میں سے تھا-

اس پارک کی جگہ یہاں عثمانیہ دورحکومت کے طرز کے بیرکوں نما شاپنگ مال کے علاوہ ایک مسجد بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا- لیکن پولیس کی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ مظاہرہ اچانک بڑھ گیا اور بالاخراس میں سماج کے مختلف طبقات بھی شامل ہوگئے جو اردگان کی حکومت کے سخت خلاف تھے.

پھر یہ مظاہرے ملک کے مختلف حصّوں میں پھیل گئے- اگرچہ پولیس تقسیم اسکوئر سے کچھ دنوں کے لئے ہٹ گئی تھی- لیکن آنسو گیس اور پانی سے مار کرنے والی توپوں کے نتیجے میں بے شمار لوگ زخمی ہو ئے-

اے کے پی حکومت کے بارے میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کی حکومت میں ترقی کی رفتار مستحکم تھی نیز انفرا اسٹرکچر کے بہت سے کامیاب منصوبوں پر بھی عمل درآمد ہوا- لیکن اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے- کیونکہ یہ کہا جانے لگا کہ بد عنوانیاں بھی ہوئی ہیں اور ترکی کے قدیم تاریخی ورثے کو پامال کیا گیا ہے-

"عوام نے بار بار چند تاریخی عمارتوں کو گرانے اورشاپنگ مال تعمیر کرنے کے خلاف احتجاج کیا"- دی نیو یارکر میں ایلف بتومان نے لکھا، "بار بار تاریخی عمارتیں گرائی گئیں اور ان کی جگہ شاپنگ سنٹر بنائے گئے"۔

اے کے پی اور اردگان کی ان کوششوں کو بھی سراہا جاتا ہے کہ اس نے ترک فوج کی سیاسی مداخلت کی قوت کو کمزور کر دیا- جو وقتًا فوقتًا جمہوریت کی جانب ترقی کے سفر میں بھی رخنہ انداز ہوتی تھی-

فوج بھی خود کو ترکی کی سیکولر روایات کا محافظ سمجھتی ہے اور لبرل خیالات کے حامل بہت سے لوگ جنہوں نے بیرکوں میں اسکی واپسی کو خوش آئیند قرار دیا تھا اب اس بات پر تشویش ظاہر کررہے ہیں کہ معاشرہ آہستہ آہستہ اسلامائزیشن کی طرف بڑھ رہا ہے-

"ہم ایران نہیں بننا چاہتے"، گزشتہ ہفتے اس قسم کے خیالات کا اظہارہوا-

بی بی سی کے نمایئندہ پال میسن نے ویک اینڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے"استنبول کے شہری حدود میں" جس وسیع عوامی حمایت کا مشاہدہ کیا وہ اس سے کہیں زیادہ تھا جو انہوں نے یونان اور "مصر کے قرب وجوار" کے احتجاجوں میں دیکھا- ان کا خیال تھا کہ اگر"اس میں مزدور بھی شامل ہوجائیں" تو یہ ترکی کا تحریر اسکوئر بن سکتا ہے-

پیر کے دن کیسک ٹریڈ یونین کنفڈریشن نے جو گیارہ یونینوں کی نمائندہ ہے "ریاستی دہشت" کے خلاف بطور احتجاج دو روزہ ہڑتال کا اعلان کیا-

تاہم ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان سب کے نتیجے میں اردگان حکومت ختم ہو جائیگی جنھیں کمال اتاترک کے بعد ترکی کا طاقتور ترین سیاستدان تسلیم کیا جاتا ہے-

لیکن ان کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ آیا وہ غم و غصّے کو کم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا بجائے اسکے وہ دانشمندی سے کام لیتے ہوئے مفاہمت کی کوشش کرتے-

بڑھتی ہوئی بے چینی اور اضطراب اس رویہ کے خلاف واضح اور واشگاف اظہار ہے جو انہوں نے اپنے مخالفین کی آراء کو نظر انداز کرنے کے سلسلے میں اپنا رکھا ہے-

گزشتہ انتخابی نتائج کے مطابق اسکا مطلب ہے کہ کم سے کم نصف آبادی ان کے خلاف ہے- بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پیوٹن کی طرح صدر بننے کی انکی خواہش اب قابل عمل نہیں رہی-

ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن تبدیلی کیلئے جو عوامی تحریک چلائی جا رہی ہے وہ مزید مراعات کا مطالبہ کر رہی ہے- حکمرانوں کی جانب سے تصادم کا کٹّر رویہ پر امن ترقی کے امکانات کو روک دیگا-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں