ورلڈ کپ کے لیے تمام ٹیموں کے اسکواڈ منظر عام پر آچکے ہیں جہاں کچھ ورلڈ کپ سے کچھ کھلاڑیوں کے اخراج پر شائقین کرکٹ کو حیرانی ہوئی تو دوسری جانب کچھ ایسے بھی خوش قسمت تھے جن پر قسمت کی دیوی خوب مہربان رہی اور ان کی دنیا کے سب سے بڑے کرکٹ مقابلے کے لیے اسکواڈ میں شمولیت نے اکثر لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ یہاں ہم کچھ ایسے ہی کھلاڑیوں کا تذکرہ کریں گے۔

سہیل خان

اس فہرست میں سب سے پہلا نام پاکستانی فاسٹ باؤلر سہیل خان کا ہے جن کی اسکواڈ میں سلیکشن کو پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف نے ’دروازہ توڑ سلیکشن‘ قرار دیا تھا۔

سہیل خان پاکستان کی جانب سے ورلڈ کپ کے لیے اعلان کردہ کھلاڑیوں کی 30 رکنی فہرست میں شامل نہیں تھے لیکن ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی کی بدولت سلیکٹرز انہیں 15 رکنی ٹیم میں شامل کرنے پر مجبور ہو گئے۔

اسٹورٹ بنی

ورلڈ کپ کے لیے ہندوستانی اسکواڈ کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی تمام حلقوں نے اسٹورٹ بنی کے اسکواڈ میں انتخاب پر سوالات اٹھانے شروع کردیے اور تمام ہی ناقدین سلیکٹرز سے سوالات کر رہے تھے کہ آل راؤنڈر کو کس بنیاد پر عالمی ایونٹ کے لیے ٹیم کا حصہ بنایا گیا؟۔

بنی ہندوستانی اسکواڈ میں شامل واحد فاسٹ باؤلنگ آل راؤنڈر ہیں اور ذرائع کے مطابق کپتان مہندرا سنگھ دھونی ان کی اسکواڈ میں شمولیت پر خوش نہیں تھے اور اس کی جگہ کسی اسپیشلسٹ فاسٹ باؤلر یا بیٹسمین کو ٹیم میں رکھنا چاہتے تھے۔

واضح رہے کہ جس سلیکشن کمیٹی نے اسکواڈ کا انتخاب کیا اس میں اسٹورٹ بنی کے والد اور سابق ہندوستانی کرکٹر راجر بنی بھی شامل تھے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کرناٹکا کے کوچ مراد علی خان کا کہنا ہے کہ بنی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچز کے لحاظ میں ایک بہترین انتخاب ہیں اور ورلڈ کپ میں اپنی سلیکشن درست ثابت کردیں گے۔

پیٹ کمنز

دیگر ٹیموں کی طرح میزبان آسٹریلیا کی جانب سے اعلان کردہ ورلڈ اسکواڈ پر بھی مختلف حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا اور سب سے زیادہ تنقید پیٹ کمنز کی اسکواڈ میں شمولیت پر کی گئی۔

یاد رہے کہ پیٹ کمنز کو تجربہ کار فاسٹ باؤلرز پیٹر سڈل اور ریان ہیرس پر ترجیح دیتے ہوئے اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سلیکٹرز نے مستقبل کے لیے ٹیم کی تیاری کو قرار دیا ہے۔

کمنز اب تک صرف ایک ٹیسٹ اور سات ایک روزہ میچوں میں آسٹریلیا کی نمائندگی کر سکے ہیں اور اس میں بھی ان کی کارکردگی سڈل اور ہیرس کے مقابلے میں واجبی رہی ہے۔

آسٹریلیا کو ورلڈ کپ میں فیورٹ تصور کیا جا رہا ہے تاہم موجودہ اسکواڈ میں دو اہم تجربہ کار کے بجائے کمنز کی شمولیت سے ان کی ورلڈ کپ مہم متاثر ہو سکتی ہے۔

آرون فنگیسو

ورلڈ کپ میں حیران کن شمولیت کے حامل کھلاڑیوں میں جنوبی افریقی کھلاڑی ایرون فنگیسو بھی شامل ہیں جس پر اکثر کھلاڑیوں اور ناقدین نے حیرانگی کا اظہار کیا ہے۔

گرن کووا کے چھوٹے علاقے سے تعلق رکھنے والے فنگیسو کی حالیہ کارکردگی انتہائی غیر متاثر کن رہی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں ورلڈ کپ کی سب سے بڑی فیورٹ ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کرکٹ ورلڈکپ 2015 کے دلچسپ اعدادوشمار

فنگیسو کی جگہ تجربہ کار روبن پیٹرسن کو باہر بٹھا دیا گیا ہے جس کا جواب دینے سے سلیکٹرز بھی قاصر نظر آتے ہیں۔

واضح رہے کہ پیٹرسن اسپن باؤلنگ کے ساتھ ساتھ نچلے نمبروں پر بہتر بلے بازی کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

جیسن ہولڈر

کرکٹ کے سب سے بڑے مقابلے کے لیے سب سے حیران کن اسکواڈ ویسٹ انڈیز کا قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

ماضی کی کالی آندھی اور ابتدائی دونوں ورلڈ کپ اپنے نام کرنے والی ویسٹ انڈین ٹیم ان دنوں شدید بحرانی صورتحال سے دوچار ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت کھلاڑیوں کی جانب سے ہندوستان کا دورہ ادھورا چھوڑنا تھا۔

دورہ ہندوستان ادھورا چھوڑ کر آنے کے جُرم میں اسٹار آل راؤنڈر ڈیوین براوو اور کیرون پولارڈ کو ورلڈ کپ اسکواڈ سے باہر کردیا گیا جس پر سلیکٹرز کو ٹیم کے کھلاڑیوں سمیت تمام اطراف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ویسٹ انڈیز نے ڈیوین براوو کو قیادت سے ہٹا دیا تھا اور انہیں ٹیم سے بھی باہر کردیا تھا جس کے بعد نوجوان جیسن ہولڈر کو ٹیم کی قیادت سونپ دی گئی تھی۔

اس اقدام پر انتہائی حیرانگی کا اظہار کیا گیا تھا کیونکہ ویسٹ انڈین ٹیم میں کرس گیل، ڈیرن سیمی اور مارلن سیمیولز سمیت متعدد تجربہ کار کھلاڑی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود سب سے بڑے مقابلے ہولڈر کو کپتان مقرر کرنے سے ٹیم گروپ بندی کا شکار ہو سکتی ہے۔

یاسر شاہ

اسٹار اسپنر سعید اجمل اور محمد حفیظ کے باؤلنگ ایکشن پر پابندی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی کے حامل لیگ اسپنر یاسر شاہ کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف موقع فراہم کیا جنہوں نے اپنے پہلے ہی میچ سے انتخاب درست ثابت کردیا۔

یاسر نے دونوں ٹیسٹ سیریز میں اچھی کارکردگی دکھائی اور اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا لیکن وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز میں ٹیم کے مستقل رکن نہ بن سکے۔

لیکن اس حقیقت اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی فاسٹ وکٹوں کے باوجود لیگ اسپنر کو عالمی کپ کے لیے اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ اسکواڈ میں آل راؤنڈر شاہد آفریدی کی صورت میں پہلے سے ایک لیگ اسپنر موجود ہے۔

ناقدین کا کہنا تھا کہ اجمل کی عدم دستیابی اور محمد حفیظ پر پابندی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان فارم شعیب ملک کو ٹیم میں شامل کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ وہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ آف اسپن باؤلنگ اور شاندار فیلڈنگ کی اضافی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور عالمی کپ میں ٹیم کے لیے بہتر آپشن ثابت ہو سکتے تھے۔

سلیکشن کمیٹی نے یاسر کی اسکواڈ کی شمولیت کے حوالے سے کہا ہے کہ لیگ اسپنر کو 1992 میں مشتاق احمد کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا لیکن اس انوکھی منطق کو صرف سلیکٹرز ہی سمجھ سکتے ہیں۔

اکشر پٹیل

رویندرا جدیجا انجری کا شکار ہوئے تو ہندوستانی ٹیم نے نوجوان اکشر پٹیل کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا جنہوں نے اپنا انتخاب درست ثابت کر دکھایا۔

ورلڈ کپ سے قبل قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ کیونکہ اب جدیجا فٹ ہو چکے ہیں لہٰذا عالمی کپ کے دستے میں تجربہ کار آل راؤنڈر کو نوجوان اسپنر پر ترجیح دی جائے گی لیکن ہندوستانی سلیکٹرز نے دلچسپ قدم اٹھاتے ہوئے جدیجا اور پٹیل دونوں ٹیم میں شامل کر لیا۔

متعدد ناقدین نے پٹیل کی اسکواڈ میں شمولیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پٹیل اور جدیجا تقریباً ایک جیسے باؤلر ہیں اور اکشر پٹیل کے بجائے ٹیم میں تجربہ کار یوراج سنگھ کو شامل کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ باؤلنگ اور تجربے کی اضافی صلاحیتوں کے بھی حامل ہیں۔

ڈینیئل ویٹوری

ڈینیئل ویٹوری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور وہ بلا شبہ دائیں ہاتھ کے دنیا کے اسپن باؤلرز میں سے ایک ہیں لیکن موجودہ اسکواڈ میں ان کی شمولیت بھی خوش قسمتی کا نتیجہ ہے۔

خوش قسمتی یوں کہ ویٹوری ایک عرصے سے کیوی ایک روزہ اسکواڈ کا حصہ نہیں تھے اور 2013 میں سلیکٹرز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کا تھا کہ تجربہ کار اسپنر ورلڈ کپ پلان میں شامل نہیں۔

پھر ایک عرصے بعد اچانک پاکستان کے خلاف حالیہ سیریز میں سلیکٹرز کو ویٹوری کی یاد ستائی جنہوں نے اپنی فارم فٹنس دونوں ہی ثابت کر کے سلیکٹرز کو عالمی کپ کے اسکواڈ میں شامل کرنے پر مجبور کردیا۔

ویٹوری کو ہوم گراؤنڈ پر تجربے کے ساتھ ساتھ 1992 ورلڈ کپ میں دیپک پٹیل جیسے کردار ادا کرے کی غرض سے ٹیم میں شامل کیا گیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ وہ سلیکٹرز کے اعتماد پر کس حد تک پورا اترتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں