'2015 بلوچستان میں امن کا سال ہے'

اپ ڈیٹ 19 جنوری 2015
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیرھ سال میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے۔— ڈان نیوز اسکرین گریب
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیرھ سال میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے۔— ڈان نیوز اسکرین گریب

کوئٹہ: بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے گذشتہ ڈیرھ سال کے دوران امن و امان کی صورتحال کو کافی حد تک بہتر بنایا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام "دوسرا رخ" میں بات کرتے ہوئے انہوں نے 2015 کو بلوچستان میں امن کا سال قرار دیا اور کہا کہ وہ صوبے میں امن قائم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو صوبے کے حالات بہت خراب تھے اور روزانہ کی بنیادوں پر ناصرف مسخ شدہ لاشیں ملتی تھیں بلکہ اغوا برائے تاوان کے کیسز بھی عام تھے۔

اس موقع پر انہوں نے قبول کیا کہ ابھی صرف سیاسی کارکنوں کی لاشیں ملنے کے واقعات میں کمی آئی ہے۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صوبے میں ہونے والی بغاوت اور مذہبی انتہاپسندی کو امن و امان کی خراب صورتحال کی وجوہات قرار دیا۔

صوبے میں کالعدم تنظیموں کے وجود کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو قومی ایکشن پلان بنایا ہے اس پر بلوچستان حکومت بھی عمل کررہی ہے اور جہاں بھی ایسے عناصر موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملکوں ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں انہی ممالک کے تعاون سے ان گروپس کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔

صوبے میں فرقہ وارانہ قتل عام سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی کچھ گروپس ایسے موجود ہیں جو ہزارہ اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔

تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ اتحادی حکومت کے قیام کے بعد سے ایسے واقعات میں نا صرف کمی آئی ہے بلکہ ماضی میں ہونے والے واقعات کے ماسٹر مائنڈز اور ملوث ملزمان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

مسائل کا حل مذاکرات ہیں

دیگر مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت ناراض بلوچوں کے ساتھ مسلسل مذاکرات کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔

تاہم، انہوں نے اس بارے میں کوئی ٹائم فریم دینے سے انکار کیا اور کہا کہ رواں سال کے آخر تک بلوچ علیحدگی پسندی کو ایک میز پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گا۔

اس سوال پر کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو حکومت کے پاس کون سا نیا پلان ہوگا جس پر عملدرآمد کیا جائے گا تو عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل باقی صوبوں سے الگ ہیں اور ان کا حل صرف اور صرف مذاکرات ہی ہیں۔

سن 2006 کے فوج آپریشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر اس وقت حالات پر قابو پانے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کیے جاتے تو آج کا بلوچستان کچھ بہتر ہوتا۔

صوبے میں تعلیم اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کی بنیادی ترجیح تعلیم ہے۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے حکومت نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ایک مہم بھی چلا رکھی ہے، تاکہ ان بچوں کو اسکولوں تک لایا جاسکے جو گھروں میں موجود ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں