ہندوستانیوں میں پاکستان کی جیت کا خوف

اپ ڈیٹ 10 فروری 2015
ورلڈکپ 1996: عامر سہیل اور پرساد — اسکرین گریب
ورلڈکپ 1996: عامر سہیل اور پرساد — اسکرین گریب

پندرہ فروری 2015 کو پاکستان اور ہندوستان ایک بار پھر ورلڈکپ کے میچ میں ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں گے تاہم اگر یہ میچ ایک دن پہلے یعنی ویلنٹائن ڈے پر شیڈول ہوتا تو یہ شاعرانہ تو ہوتا مگر ساتھ میں بے محل بھی ہوتا۔

درحقیقت یہ کبھی بھی محبت کرنے والوں کی لڑائی نہ تھی اور نہ ہے۔ پاکستان اور انڈیا کا میچ سخت، جارحانہ، اور زبردست ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ یہ لڑائی صرف کرکٹ کے میدان تک ہی محدود رہتی ہے۔

کھیل کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ وسیع تر حالات پر اثرانداز نہیں ہوتا، لیکن کھیلا ایسے ہی جاتا ہے کہ جیسے یہ اثرانداز ہوتا ہے۔

سرحد کے دونوں جانب کرکٹ کے دیوانے (مجھ سمیت) اس دعوے پر ہتھے سے اکھڑ سکتے ہیں کہ 'آخر انڈیا پاکستان کا میچ کیسے اہمیت نہیں رکھتا؟ وہ بھی ورلڈکپ میں؟ نہیں، نہیں، نہیں یہ میچ تو کسی زلزلے جتنی اہمیت کا حامل ہے۔'

لوگوں کو یہ بھی یاد ہوتا ہے کہ انہوں نے اس دن کیا کام کیا، کیا کھانا کھایا اور کہاں میچ دیکھا۔

1992 — کرکٹ پڑھنا اور فزکس دیکھنا

میں کبھی بھی 1992 میں سڈنی کرکٹ گراﺅنڈ (ایس سی جی) میں ہونے والا ٹکراﺅ نہیں بھول سکتا۔

مجھے اس میچ کے اگلے روز مہاراشٹرا اسٹیٹ بورڈ کے امتحانات میں شرکت کرنا تھی اور میرا پورا تعلیمی مستقبل داﺅ پر لگا تھا لیکن یہ صرف معمولی پریشانی تھی۔

مگر جو چیز زیادہ اہمیت رکھتی تھی وہ یہ کہ یہ مارو یا مر جاﺅ والا مقابلہ تھا۔ دونوں ٹیموں کا آغاز برا تھا اور ایسا تصور کیا جارہا تھا (جو کہ بعد میں بالکل غلط ثابت ہوا) کہ جو بھی یہ میچ ہار جائے گا اس کے پاس کپ اٹھانے کا کوئی چانس نہیں رہے گا۔

ہندوستان نے پہلے کھیلتے ہوئے بہت کم 216 رنز بنائے اور وہ بھی اننگ کے اختتام میں نوجوان سچن ٹنڈولکر اور بوڑھے ہوتے کپل دیو کی بیٹنگ کی مہربانی سے۔ پاکستان کی محتاط بیٹنگ اس کے لیے بھاری ثابت ہوگئی خاص طور پر میاں داد کوفت کی حد تک سست کھیلے اور واحد تفریح جو انہوں نے فراہم کی وہ مور کے وکٹ کے پیچھے کے رویے کی بھرپور نقل تھی۔

جب ہندوستان نے دسویں وکٹ بھی لے لی تو میں واپس اپنی بیزار کن فزکس کی کتاب کھولنے پر مجبور ہو گیا۔

اور جب پاکستان نے ورلڈکپ جیتا تو میں نے اور دیگر لاکھوں ہندوستانیوں نے اپنے حسد پر اس دلیل سے پانی ڈالنے کی کوشش کی کہ ہم نے ورلڈ چیمپئن ٹیم کو شکست دی تھی۔

``

1996 — وینکٹیش پرساد کی تباہ کن بولنگ

چناسوامی اسٹیڈیم میں ہونے والا 1996 کا مقابلہ اس مسابقت کو ایک نئی سطح پر لے گیا۔ مین آف دی میچ سدھو کی باہمت اننگ نے ہندوستانی اننگز کو بنیاد فراہم کی مگر یہ اجے جدیجہ کی بلے بازی کا نادر نمونہ تھا جو بڑے مجموعے کو اسکور بورڈ پر سجانے کا سبب بنا۔

عامر سہیل اور سعید انور، جو دونوں اس وقت اپنے عروج پر تھے، نے پاکستانی اننگز کا آغاز طے شدہ رفتار سے کیا۔ ہندوستانی باﺅلرز بظاہر سمجھ سے پیدل نظر آرہے تھے۔ ایک چوکے کے بعد عامر سہیل نے ہاتھ کے اشارے سے وینکٹش پرساد کو کور باﺅنڈری دکھائی جیسے کہ اشارہ کر رہے ہوں کہ تمہاری گیندوں کی اصل جگہ وہاں ہے۔

میں اور میرے دوست پرساد کو " دنیا کا سب سے تیز اسپنر" کہتے تھے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ اگلی بال کو دیکھنا کسی ڈراؤنی فلم کی طرح تھا۔

مگر اس وقت میں حیرت زدہ رہ گیا جب گیند سوئنگ ہو کر اندر آئی اور عامر سہیل کا آف اسٹمپ اڑا دیا اور اس کے بعد عام طور پر پرسکون رہنے والے پرساد کے منہ سے کچھ الفاظ نکل گئے۔

پاکستان اس جھٹکے کے بعد سنبھل نہیں سکا اور ہندوستان نے پاکستان کے خلاف مسلسل دوسرا میچ جیت لیا۔

میں اس وقت انجینیئر بننے کے قریب تھا اور دنیا میں سب کچھ اچھا تھا۔

``

1999 — ایک بار پھر وینکٹیش پرساد کی تباہ کن بولنگ

میں 1999 میں اولڈ ٹریفورڈ میں کھیلے جانے والے میچ کی پہلی اننگ کے دوران سوتا رہا۔

میں اس وقت کیلیفورنیا کے علاقے سان ہوزے میں تھا اور جس وقت میں بیدار ہوا تو پاکستان کی زبردست باﺅلنگ لائن اپ ہندوستان کو بہت کم اسکور پر روک چکی تھی۔

اس وقت مجھے پیجر پر پورے ہفتے میں چوبیس گھنٹے کے دوران کسی بھی وقت کام پر طلب کیا جا سکتا تھا اور میں سان ہوزے کے نواح میں میچ دیکھنے کے لیے اپنے کسی دوستوں کے ساتھ بھی نہیں جا سکا تھا مگر میرے دوست مجھے پاکستان کی ہر وکٹ گرنے پر پیغام ضرور بھیجتے۔

اور اس بار بھی پاکستانی تباہی کا سہرا پرساد کے سر گیا اور ہندوستان کو پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ میچز میں 0-3 کی برتری حاصل ہوگئی۔

``

2003 — سچن کی وہ اننگز!

میں 2003 میں ہندوستان واپس آ چکا تھا اور پورے دن کام میں مصروف نہیں رہتا تھا، تو میں نے سنچورین میں کھیلے جانے والے میچ کو پہلی سے آخری گیند تک دیکھا۔

پاکستان کی جانب سے دیا گیا 273 کا ہدف دفاع کے قابل نظر آرہا تھا کیونکہ باﺅلنگ میں وہ بہت مضبوط ٹیم تھی اور پھر کچھ الگ ہوا۔

پہلے تو سچن نے اپر کٹ پر شعیب اختر کی گیند کو تماشائیوں میں پھینکا اور پھر سہواگ نے بالکل ایسا ہی وقار یونس کے ساتھ کیا۔

میرا کزن جو چنائی کے مرینہ ساحل پر لگی ایک بڑی اسکرین پر میچ دیکھ رہا تھا، نے مجھے فون کیا اور چیخا "کیا تم نے یہ دیکھا! کیا تم نے یہ دیکھا؟"

بد قسمتی سے بہت کم لوگوں کو یاد ہے کہ راہول ڈریویڈ اور یووراج سنگھ کی اننگ نے میچ کو ہندوستان کے نام کردیا تھا۔

اور 0-4 ہو گیا۔ دیکھنے میں یہ نمبر بہت اچھا لگ رہا تھا۔

``

2011 — آخر کار 0-5

2007 کا ورلڈ کپ دونوں ٹیموں کے لیے بھیانک خواب تھا اور یہ دونوں ایک بار پھر 2011 کے ایونٹ میں موہالی میں کھیلے گئے سیمی فائنل میں مدِ مقابل آئے۔ ایک پاک انڈیا میچ پر اس سے زیادہ جوش و خروش پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

میں ٹاس کے وقت ایک پیشہ وارانہ اسائنمنٹ کے لیے ممبئی پہنچا تھا۔ میں نے بمبئی سینٹرل کو بھاری رقم ادا کی اور ایک سستے ہوٹل میں کمرہ لے لیا۔ اس وقت مجھے کھٹملوں، کھانے یا ٹریفک کے شور کی کوئی پروا نہیں تھی، میں تو بس اپنے کمرے میں ٹی وی کے ساتھ تنہا رہنا چاہتا تھا۔

جب میں نے ٹی وی کھولا تو سہواگ تیزی رفتاری سے بیٹنگ کر رہا تھا مگر نمایاں اننگ سچن کے نام رہی۔ ان کا کیچ پانچ بار ڈراپ ہوا، اسٹمپ آؤٹ کی ناکام کوشش اس کے علاوہ ہے، جبکہ ایل بی ڈبلیو کی اپیل پر تھرڈ ایمپائر نے انہیں ناٹ آﺅٹ قرار دیا۔

یہ سچن کی سب سے اہم اننگ تھی اور یہ ان کی سب سے ناقابل اطمینان اننگ بھی تھی۔ انہوں نے 85 رنز اسکور کیے جو کہ آخری نتیجے کے لیے کافی ثابت ہوئے۔

تاہم اس فتح کا سہرا ہندوستان کے عمر رسیدہ اسپیڈ اسٹار ظہیر خان، مناف پٹیل اور اشیش نہرا کے سر بھی جاتا ہے جنہوں نے کسی نہ کسی طرح اتنی توانائی اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا جو ہندوستان کی جیت کے لیے کافی ثابت ہوئی۔

اور یوں ورلڈکپ میں پاکستان کے خلاف انڈیا کا اسکور 0-5 ہو گیا۔

``

اب منظر پر کیا ہے؟

اگر تو ایڈیلیڈ اوول پر پندرہ فروری کو آسمان صاف رہے تو وہاں ایک زبردست میچ ہوگا اور اس روز ورلڈ کپ کی تاریخ کوئی معنی نہیں رکھتی ہوگی۔

موہالی کے ٹاکرے کے بعد سے دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے کے خلاف تین تین میچز جیتے ہیں اور اگر یہ مقابلہ ہندوستانی بلے بازوں اور پاکستانی باﺅلرز کے درمیان ہوا تو مجھے آسٹریلین وکٹوں پر پاکستان کے امکانات زیادہ نظر آتے ہیں (بھلے ہی پاکستان اب کافی حد تک کمزور ہوچکا ہے)۔

مگر کیوں؟ کیونکہ اس وقت ہندوستانی اسکواڈ بدقسمتی میں پھنسا نظر آتا ہے۔

مہندرا سنگھ دھونی کبھی بھی جوش سے اتنے عاری نظر نہیں آئے اور ہندوستانیوں کو توقع ہے کہ موقع کی نزاکت انہیں اور ان کی ٹیم کو ایک بار پھر توانائی سے بھر دے گی۔ اس میچ کو جو چیز مزید نمایاں کرتی ہے وہ یہ شواہد ہیں کہ کچھ باﺅلرز موجودہ نائب کپتان کی قیادت میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

پاکستان کی طرف جائیں تو مصباح الحق اور شاہد آفریدی آخری بار فتح کا نعرہ لگانا چاہتے ہیں۔ وہ ماضی کا تسلسل توڑنے کے لیے میدان میں آئیں گے اور یہ دونوں ہی اپنے اچھے دن پر غیرمعمولی ثابت ہوتے ہیں۔

اگر میں پاکستانی تھنک ٹینک کا حصہ ہوتا تو میں یاسر شاہ کو ضرور کھلاتا، وہ اس میچ میں غیرمتوقع اکا ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ اب ہندوستانی بلے باز اسپن کو زیادہ اچھا کھیلنے کا دعویٰ مزید نہیں کرسکتے۔

سرحد کے مشرقی جانب کے لوگوں کو توقع ہے کہ ان کی ٹیم اپنا ریکارڈ ٹوٹنے نہیں دے گی۔

مگر دوستوں میں " فہم" کی بات کررہا ہوں۔ ایک پاکستانی فتح اس بار نظر آرہی ہے۔ یقیناً ٹورنامنٹ کے فارمیٹ کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ دونوں ٹیمیں سیمی فائنل یا فائنل میں ایک بار پھر آمنے سامنے آجائیں بشرطیکہ دونوں ٹیمیں اپنی فارم سے بڑھ کر زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ کریں۔

لیکن یہ دور کی بات ہے۔ پندرہ فروری کی جانب واپس آئیں جب ایک اور پاک ہندوستان میچ کھیلا جائے گا اور مجھے یقین ہے کہ اس میں بہت زیادہ نعرے بازی ہونے والی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں