'جہادی دلہنوں' کو روکنے کے لیے برطانیہ پریشان

اپ ڈیٹ 23 فروری 2015
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو
لندن میں پندرہ برس کی امیرہ عباس کے والد عباس حسین اسکاٹ لینڈیارڈ پر اتوار کو ایک انٹرویو کے دوران اپنے ہاتھ میں ایک ٹیڈی بیئر پکڑے ہوئے ہیں، جو امیرہ نے اپنی والدہ کو دیا تھا۔ لاپتہ ہونے والی تین لڑکیوں کے گھروالوں کا کہنا ہے کہ  وہ شام گئی ہیں، جہاں وہ اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت اختیار کرلیں گی۔ انہوں نے ان تینوں سے واپسی کی التجاء کی ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی
لندن میں پندرہ برس کی امیرہ عباس کے والد عباس حسین اسکاٹ لینڈیارڈ پر اتوار کو ایک انٹرویو کے دوران اپنے ہاتھ میں ایک ٹیڈی بیئر پکڑے ہوئے ہیں، جو امیرہ نے اپنی والدہ کو دیا تھا۔ لاپتہ ہونے والی تین لڑکیوں کے گھروالوں کا کہنا ہے کہ وہ شام گئی ہیں، جہاں وہ اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت اختیار کرلیں گی۔ انہوں نے ان تینوں سے واپسی کی التجاء کی ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی
لاپتہ ہونے والی پندرہ برس کی شمیمہ بیگم کی بڑی بہن اس کی تصویر میڈیا کو دکھا رہی ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
لاپتہ ہونے والی پندرہ برس کی شمیمہ بیگم کی بڑی بہن اس کی تصویر میڈیا کو دکھا رہی ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

لندن: اتوار کے روز برطانیہ میں یہ بحث اپنے عروج پر پہنچ گئی کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ گروپ میں نوجوان لڑکیوں کی شمولیت کو کیسے روکاجائے۔ اس بحث کا آغاز کھاتے پیتے گھرانوں کی تین نوجوان لڑکیوں کے گھر سے بھاگ جانے کے حالیہ واقعے کے بعد ہوا تھا۔

یہ تینوں اسکول کی قریبی سہیلیاں تھیں، ان میں خدیجہ سلطانہ سترہ برس کی جبکہ شمیمہ بیگم اور امیرہ عباس پندرہ پندرہ برس کی ہیں۔ انہوں نے لندن ایسٹ میں واقع اپنے گھروں منگل کے روز چھوڑ دیا اور استنبول فرار ہوگئیں۔ ان کے متعلق یہ خدشات بڑھتے جارہے ہیں کہ وہ شام کا سفر کریں گی اور آئی ایس میں شامل ہوجائیں گی۔

ان تینوں نے دسمبر کے دوران ان کی ایک دوست کی گمشدگی کی تحقیقات کے دوران پولیس کو بتایا تھا کہ وہ شام گئی ہے، لیکن اسکاٹ لینڈ یارڈ کا اصرار ہے کہ اس وقت ایسا کچھ محسوس نہیں ہوا تھا، کہ یہ لڑکیاں خود بھی اسی طرز کے خطرے کی زد میں تھیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آیا انتباہی علامات کو نظرانداز کردیا گیا تھا، اور انہیں سفر سے روکنے کے لیے کچھ زیادہ کیا جانا چاہیے تھا۔

بیگم کے نام سے ٹوئٹر کے ایک اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہوئے کسی نے پچھلے اتوار کو یہ اعتراف کیا تھا کہ اس نے اقصیٰ محمود کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔ یہ خاتون گلاسگو، اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے پچھلے سال شام کا سفر کیا تھااور آئی ایس گروپ کے ایک جنگجو سے شادی کرلی تھی۔

اقصیٰ کے گھروالوں نے اس کے اس اقدام کی سختی سے مذمت کی تھی، یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ آخر اس سلسلے میں مناسب کارروائی کیوں کی گئی۔

اقصی محمود کے خاندان کے وکیل عامر انور نے اتوار کے روز بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا ’’ہم پولیس کی اسپیشل برانچ کے ساتھ رابطے میں ہیں، جو اس کے سوشل میڈیا کے رابطے کو باقاعدگی کے ساتھ چیک اور نگرانی کررہی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’حقیقت یہ ہے کہ وہ اب ایسے نوجوانوں کے ساتھ منسلک ہے، جو اس کو بھرتی کرنے کی کوشش کریں گے، اس کے گھروالوں کا کہنا ہے کہ اس ملک میں کیا واقعی سیکورٹی سروسز کچھ کررہی ہیں۔‘‘

اس بحث سے اس مسئلے برطانیہ میں بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی ہوتی ہے۔

انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین نے تخمینہ لگایا ہے کہ لگ بھگ پچاس خواتین آئی ایس میں شمولیت کے برطانیہ سے شام چلی گئی ہیں، جبکہ ’’جہادی دلہنوں‘‘ کی کہانیاں، برطانیہ کے چھوٹے اخبارات کے لیے خام مال بن گئی ہیں۔

انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک ڈائیلاگ تھنک ٹینک کی جانب سے گزشتہ ماہ کیے گئے ایک جائزے کے مطابق یورپ بھر سے 550 خواتین نے عراق اور شام کا سفر کیا ہے، جہاں ان میں سے اکثر نے جنگجوؤں سے شادی کرلی ہے اور دیگر کی بھرتیوں میں مدد کررہی ہیں۔

تاہم اس رجحان کو روکنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے، اس پر مختلف آراء موجود ہیں۔

اس مہینے سامنے آنے والے نئے قانون کے تحت ایسے برطانوی شہریوں کے پاسپورٹ ضبط کیے جاسکتے ہیں، جن پر شبہ ہو کہ وہ شام یا عراق کا سفر کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ان لڑکیوں کے معاملے میں پہلے سے شبہ نہیں کیا گیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت بھی آنے والے مہینوں میں اضافی اقدامات متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔جن میں باہر جاتے ہوئے پاسپورٹ کی چیکنگ اور ایئرپورٹ پر اسکریننگ میں اضافہ شامل ہیں۔

ترکش ایئرلائنز جس کی پرواز سے یہ لڑکیاں استنبول فرار ہوئی تھیں، کا کہنا ہے کہ اس کی ذمہ داری مسافروں کے ویزوں کی چیکنگ ہے، اور پرواز سے قبل سیکورٹی کےمعاملات ایئرپورٹ حکام کی ذمہ داری ہے۔

ڈیوڈ کیمرون کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی ایسی نہیں ہے کہ ہم محض پولیس اور سرحدی کنٹرول کے ذریعے روک سکیں۔

اس صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے انہوں نے اسکولوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں پر زور دیا کہ وہ اپنے کردار کو تسلیم کریں۔

لیکن سعیدہ وارثی جو برطانیہ کی پہلی مسلم خاتون وزیر تھیں، انہوں نے پچھلے سال حکومت کی غزہ پالیسی پر استعفٰی دے دیا تھا، انہوں نے خبردار کیا کہ کسی ایک نے بھی دہشت گرد بننے کے لیے سفر نہیں کیا۔

انہوں نے اتوار کو سکائی نیوز پر انٹرویو دیتے ہوئے انٹرنیٹ کے کردار پر روشنی ڈالی جس نے مسلم نوجوانوں کے اندر بنیاد پرستی میں اضافہ کیا ہے۔

اسی بات کی تائید انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کی روز فرینیٹ نے کی، انہوں نے اصرار کیا کہ آن لائن پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید کوششیں کی جائیں۔

انہوں نے ان تین لڑکیوں کی طرز کے خاندانوں کی مزید مدد پر بھی زور دیا، تاکہ بنیاد پرستی کی علامات کی شناخت کی جاسکے۔ یاد رہے کہ ان خاندانوں نے ہفتے کے روز اپنی بچیوں کی واپسی کے لیے جذباتی اپیلیں کی تھیں۔

روز فرینیٹ نے کہا کہ انتہاپسندی بہت زیادہ خوفناک ہے، لوگ اس کے ساتھ تعلق کے احساس کے لیے دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے، جو عدم استحکام کا شکار ہیں۔ خوفناک انتہاپسندی کی جانب درحقیقت ہر قسم کے لوگ بڑھ رہے ہیں، جو بہت اچھا پس منظر رکھتے ہیں اور وہ بھی جو معاشی طور پر مستحکم ہیں۔‘‘

تبصرے (1) بند ہیں

Toofan Feb 24, 2015 12:11am
Yeh bechare daish ki fareb ka shikaar ban kar ghar se bhag gaye hain. Daish agar such main Musalman hota to un ko itna pata hota ke bachon aur bachion ka pehla farz hai apne waldain ki dil ko na dhukane hai. Yeh larkiyan apne gharon se bhag kar apne gharwalon ki saath bahut na-insaafi ki hain aur Daish ki shomolyat le kar shaddat pasandi aur dehshatgardi ko apna lye hain. In ki gharwalon ko dekh kar mere dil main shadeed sa dard ho rahi hai. Allah in ko sahih raste par laaye.