برطانیہ میں سابق معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر پر تیزاب حملے کے شواہد نہ ملنے کے باعث تحقیقات بند کردی گئیں۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ نے میڈیا رپورٹس کے حوالے سے بتایا کہ 6 ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات میں کسی مشکوک شخص کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

رپورٹ نے پولیس ذرائع کےحوالے سے بتایا کہ ہم نے انکوائری میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا اور کسی بھی مشتبہ شخص کو شناخت کرنے میں ناکام رہے۔

انتہائی پیچیدہ تحقیقات قرار دیتے ہوئے ہرٹ فورڈ شائر کانسٹیبلری نے کہا کہ نومبر سے افسران اس معاملے میں ملوث عناصر کو تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس مرحلے پر ہم نے تمام پہلوؤں سے انکوائری کر لی ہے اور کسی بھی مشتبہ شخص کا پتا لگانے میں ناکام رہے۔

میڈیا رپورٹ میں ایک انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے بھی تصدیق کی ہے کہ تحقیقات کو بند کر دیا گیا ہے کیونکہ تفتیش کے دوران کوئی مشتبہ شخص نہیں پایا گیا، جس میں کئی گھنٹوں کی فوٹیج اور روئسٹن کے مقامی علاقے کے داخلی اور خارجی راستوں کا جائزہ لیا گیا۔

مزید کہا گیا ہے کہ تحقیقات کو بند کرنے کا فیصلہ فرانزک کی جانب سے کوئی پیش رفت نہ ہونے اور کوئی سراغ نہ ملنے کے بعد کیا گیا۔

یاد رہے کہ 27 نومبر 2023 کو مرزا شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ ان پر لندن میں تیزاب کا حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں مرزا شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’کل شام انگلینڈ میں مجھ پر حملہ کیا گیا، نامعلوم حملہ آور نے میر ے اوپر تیزابی محلول پھینکا اور فرار ہو گیا۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ ’حملہ انگلینڈ میں میری رہائش گاہ پر کیا گیا جہاں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہوں، شکر ہے میری اہلیہ اور بچوں کو نقصان نہیں پہنچا، میں زخمی ہوا ہوں تاہم میرے زخم جان لیوا نہیں ہیں، پولیس اور ایمرجنسی سروسز فوری طور پر پہنچ گئیں اور اب گھر کی حفاظت کی جا رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان شاللہ میرا حوصلہ اور عزم برقرار ہے اور رہے گا اور ظالم اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوں گے اور ان شااللہ جلد بے نقاب بھی ہوں گے۔‘

یاد رہے کہ شہزار اکبر کو پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد متعدد مقدمات کا سامنا تھا لیکن وہ گزشتہ سال کے اوائل میں ملک چھوڑ کر انگلینڈ منتقل ہوگئے تھے۔

لندن منتقلی سے متعلق جولائی میں ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں بھگوڑا نہیں ہوں، ہر سوال کا جواب دوں گا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے معاون برائے احتساب شہزاد اکبر سے 7 نومبر کو حکومت نے اس معاہدے کے بارے میں دستاویزات طلب کی تھیں جن میں درج خفیہ تصفیے کے تحت برطانیہ سے تقریباً 14 کروڑ پاؤنڈز اور 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی منتقلی ہوئی۔

واضح رہے کہ شہزاد اکبر کو اگست 2018 میں احتساب و داخلہ کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا اور وہ لوٹی ہوئی رقم بیرون ملک سے واپس لانے کے لیے تشکیل دیے گئے ادارے کے اثاثہ برآمدگی یونٹ کے سربراہ بھی تھے۔

بعدازاں 22 جولائی 2020 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا عہدہ تبدیل کرکے انہیں عمران خان کا مشیر برائے داخلہ اور احتساب مقرر کردیا گیا تھا۔

رواں برس 15 اگست کو وفاقی کابینہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے 2 قریبی ساتھیوں مرزا شہزاد اکبر اور ضیا المصطفیٰ نسیم کے نام نیب کی درخواست پر مالیاتی اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کی منظوری دی تھی۔

ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت کے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے قانونی ماہر شہزاد اکبر اور ضیا المصطفیٰ نسیم کے نام نیب کی سفارش پر ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں