ممبئی حملہ کیس میں حکومت پراسیکیوٹر ڈھونڈنے میں کامیاب

08 مارچ 2015
ذکی الرحمان لکھوی — ڈان نیوز اسکرین گریب
ذکی الرحمان لکھوی — ڈان نیوز اسکرین گریب

اسلام آباد : ممبئی حملہ کیس کے ماسٹر مائنڈ کی جانب سے اپنی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے کوششوں میں تیزی کے بعد وفاقی حکومت نے یہ مقدمہ ایک اور پراسیکیوٹر کے حوالے کرنے کا فیصلہ اس توقع کے ساتھ کیا ہے کہ وہ ذکی الرحمان لکھوی کے خلاف طویل عرصے سے زیرالتواءٹرائل کا انجن اسٹارٹ کرنے کے قابل ہوجائے گا۔

ممبئی حملہ کیس کی تحقیقات کے قریب ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل مصباح الحسن قاضی کو اس مقدمے میں ذکی الرحمان لکھوی کے خلاف پراسیکیوٹر تعینات کیا گیا ہے۔

عہدیدار نے بتایا " وزارت داخلہ نے ایڈووکیٹ مصباح الحسن قاضی کی ممبئی حملہ کیس میں بطور خصوصی پراسیکیوٹر تعیناتی کی منظوری دے دی ہے اور اس حوالے سے ایک سمری نوٹیفکیشن کے اجراءکے لیے وزارت قانون کو بھجوا دی گئی ہے"۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ تعیناتی کی صورت میں مصباح الحسن قاضی حملہ حملہ کیس کے تیسرے خصوصی پراسیکیوٹر ہوں گے۔

ایڈووکیٹ قاضی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ایک پیشہ ور وکیل ہونے کی حیثیت سے ان کے اٹارنی جنرل سے اچھے تعلقات ہین مگر انہوں نے ممبئی حملہ کیس میں تعیناتی پر تبصرہ کرنے کی بجائے کہا کہ فوجداری مقدمات پر کام کرتے رہے ہیں اور اس سے پہلے انسداد دہشت گردی کے مقدمات کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔

اس وقت دو خصوصی پراسیکیوٹرز محمد اظہر چوہدری اور سید ابوذر حسنین پیرزادہ ممبئی حملہ کیس کو ڈیل کررہے ہیں۔

ایڈووکیٹ ابوذر پیرزادہ کی تعیناتی خصوصی پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار علی کے قتل کے بعد ہوئی تھی۔

ذوالفقار علی کو اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں ان کی رہائش گاہ کے قریب فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا، وہ اس وقت ممبئی حملہ کیس اور بے نظیر بھٹو قتل کیس جیسے دو ہائی پروفائل مقدمات کو ڈیل کررہے تھے۔

وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے اٹھارہ دسمبر کو ذکی الرحمان لکھوی کو بعد از گرفتاری ضمانت دیئے جانے پر نئے خصوصی پراسیکیوٹر کی تلاش شروع کردی تھی۔

لکھوی سمیت چھ دیگر مشتبہ افراد فروری 2009 سے حراست میں ہیں، ذکی الرحمان لکھوی پر نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام ہے جس میں 166 افراد ہلاک ہوئے۔

پاکستانی حکومت نے ذکی الرحمان لکھوی اور دیگر مشتبہ افراد کو فروری 2009 میں حراست میں لیا تھا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے خصوصی تفتیشی یونٹ (ایس آئی یو) نے ذکی الرحمان لکھوی اور چھ دیگر ملزمان کے خلاف 2009 میں ایف آئی آر رجسٹر کی تھی۔

ہندوستان اور دیگر ممالک نے ذکی الرحمان لکھوی کو ضمانت دیئے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا جس نے حکومت کو لکھوی کو ایم پی او کے تحت نظربند کرنے پر مجبور کردیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے 29 دسمبر نے نظربندی کا حکم معطل کردیا مگر سپریم کورٹ نے سات جنوری کو لکھوی کی نظربندی بحال کردی۔

ممبئی حملہ کیس کی پراسیکیوشن ٹیم نے ذکی الرحمان لکھوی کی ضمانت منسوخ کرنے کی اپیل دائر کی جو تاحال اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے۔

اس پٹیشن میں ایف آئی اے کے خصوصی پراسیکیوٹر نے دعویٰ کیا ہے " یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے مقدمات کی پراسیکیوشن متعدد برسوں سے ملک کا مشکل ترین کام بن چکا ہے"۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے " یہاں تک کہ اس مقدمے میں پراسیکیوشن کو دوران سماعت موبائل فونز پر دھمکیاں موصول ہوئیں جن سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا، گواہ بھی محفوظ نہیں اور وہ اس صورتحال میں ملزمان کے سامنے بیان دینے سے انکاری ہیں"۔

دوسری جانب حکومت نے ذکی الرحمان لکھوی کے خلاف 29 دسمبر کو ایک چھ سال پرانے افغان نژاد فرد کے اغوا کے مقدمے کی ایف آئی آر رجسٹر کرادی ہے۔

لکھوی نے حال ہی میں اپنے وکلاءکے ذریعے اغوا کے مقدمے میں رہائی اور نظربندی کے احکات کے خالف پٹیشنز دائر کی ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئندہ ہفتے اس پٹیشن کی سماعت کا امکان ہے۔

ڈان سے بات کرنے والے عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایڈووکیٹ قاضی فوجداری مقدمات کے بہت بڑے ماہر نہیں مگر انہیں ممبئی حملہ کیس کے بین الاقوامی معاملات کو ڈیل کرنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ ایڈووکیٹ قاضی اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کے قریبی دوست ہیں۔

اس نے یہ نکتہ بیان کیا " ممبئی حملہ کیس کرمنل پروسیجر کوڈ کے تحت چل رہا ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی قانون کے ایک ماہر کی تعیناتی کی ضرورت نہیں تھی"۔

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ متعدد کوششوں کے باوجود اس معاملے پر بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہوسکے۔

حال ہی میں وزیراعظم کے قانونی امور کے حوالے سے خصوصی مشیر تعینات ہونے والے اوشتر اوصاف علی نے کہا کہ چونکہ انہوں نے ابھی چارج لیا ہے لہذا اس حوالے کوئی معلومات ان کے پاس نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں