انقلابی شاعر حبیب جالب کی 22ویں برسی

12 مارچ 2015
حبیب جالب —تصویر بشکریہ ورڈ پریس۔
حبیب جالب —تصویر بشکریہ ورڈ پریس۔

اردو کے انقلابی شاعر حبیب جالب کی 22 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔

1928 پیدا ہونے والے حبیب جالب 1947 میں برضغیر کی تقسیم کے موقع پر پاکستان تشریف لے آئے اور کراچی میں روزنامہ امروز میں کام کرنا شروع کیا۔ ترقی پسند شاعر ہونے کی حیثیت سے جالب نے جنرل ایوب خان اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف لکھا اور خواتین کے ساتھ حدود آرڈنینس کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کیے۔

جالب کو کئی مرتبہ جیل میں سزا بھی کاٹنی پڑی تاہم انہوں نے شاعری نہیں چھوڑی۔ ایک مرتبہ جیل میں ان سے کہا گیا کہ انہیں کاغذ اور قلم فراہم نہیں کیا جائے گا جس پر انہوں نے جواب دیا 'میں آپ کے محافظوں کو اپنے شعر سناؤں اور وہ اسے دیگر افراد کو سنائیں گے اور اس طرح یہ لاہور تک پہنچ جائے گا۔'

ان کو لوگوں کا شاعر کہنا غلط نہ ہوگا کیوں کہ دیگر اردو شاعروں کے برعکس جالب مقامی انداز اپنانے کی صلاحیت رکھتے تھے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتے تھے۔

ان کی نظمیں دستور اور مشیر آج بھی اتنی ہی مقبول ہیں جتنی اس وقت تھیں جب انہیں پہلی مرتبہ پڑھا گیا تھا۔ مشیر کی شہرت میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب لال بینڈ نے کچھ سال قبل اس پر گانا بناکر پیش کیا۔

بینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر تیمور رحمان جالب کے بارے میں کہتے ہیں کہ غالب کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ کئی طرح سے معاشرے میں رائج روایات کے خلاف تھے۔ سب سے پہلے تو وہ ملک میں موجودہ سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ اور سماجی و اقتصادی نظام کے خلاف تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی بائیں بازو کی ترقی پسند تحریک کے لیے وفد کردی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عوامی سطح پر وہ اس تحریک کی سب سے زیادہ وکالت کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جالب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں شوشلزم کے پیچیدہ خیالات کو سیاست، شاعری اور طنز و مزاح کا روپ دینا آتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کوئی سیاست یا لٹریچر کا طالب علم صرف جالب کی شاعری پڑھ کر عوامی جدوجہد کو نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ اس کے سیاق و سباق سے بھی آگاہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ اکثر ان سے پوچھتے ہیں کہ جالب کی وفات کو دو دہائی گزر جانے کے بعد ان کی شاعری آج کے دور میں کیسے لاگو ہوسکتی ہے، میرا جواب آسان سا ہے کہ جب تک وہ طاقتیں جن کے خلاف جالب کھڑے ہوئے اقتدار میں رہیں گی ان کی شاعری اثر چھوڑتی رہے گی۔ جیسے کہ جالب نے خود لکھا:

موسیقار اور گلوکار علی آفتاب سعید نے بھی کہا کہ اپنے کردار کی وجہ سے جالب جیسا کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حبیب جالب صرف ایک ایسے انقلابی نہیں تھے جو اپنی شاعری تک محدود تھے بلکہ اس کا اثر انکی اپنی زندگی پر بھی تھا۔ انہوں نے علالت کے موقع پر اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے ایک روپیہ تک لینے سے انکار کردیا اور جب سابق وزیراعظم نے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک بھجوانے کی پیشکش کی تو انہوں نے کہا 'یہ جو باقی وارڈ پر پڑے ہیں وہ نظر نہیں آرہے؟'

سعید نے کہا کہ ہماری تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی جہاں کوئی آرٹسٹ حکومت کی مدد کے بغیر باقی رہا ہو، جالب وہ واحد شخصیت ہیں جو ایسا کرپائے۔ انہوں نے کہا کہ جالب ان کے لیے اس لیے اثر انداز کردینے والی شخصیت تھے کہ ان کے وقت میں متعدد معروف شاعر موجود تھے اس کے باوجود جالب کا نام ابھی تک زندہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں