'حکومت ہرعبادت گاہ کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتی'

اپ ڈیٹ 17 مارچ 2015
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اعتراف کیا ہے کہ ہر عبادت گاہ کو سیکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی تمام اسکولوں، مساجد، اور مارکیٹوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔

منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے سانحہ یوحنا آباد کو دلخراش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کا مقصد تفرقہ پیدا کرنا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ یوحنا آباد کے واقعے کے بعد جو ہوا اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ایک آگ دہشت گردوں نے اور دوسری ہم نے خود لگائی۔ رپورٹس کےمطابق زندہ جلایا گیا شخص نعیم شریف شہری تھا اور جن لوگوں نے زندہ افراد کوجلایا ان کے خلاف سخت ترین کارروائی ہوگی۔

یاد رہے کہ رواں اتوار کو لاہور میں مسیحی برادری کے اکثریتی علاقے یوحنا آباد میں قائم دو چرچوں رومن کیتھولک چرچ اور کرائسٹ چرچ کو دو خود کش حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔

پہلا دھماکا کیتھولک چرچ اور دوسرا کرائسٹ چرچ میں اس وقت ہوا جب مسیحی افراد عبادت میں مصروف تھے۔ واضح رہے کہ یوحنا آباد عیسائیوں کی سب سے بڑی آبادی ہے جہاں 10 لاکھ کے قریب افراد رہائش پذیر ہیں۔

مزید پڑھیں:لاہور: یوحنا آباد میں 2 دھماکے، 15افراد ہلاک

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ یوحنا آباد واقعے میں 21 افراد مارے گئے جس میں 14 عیسائی اور 7 مسلمان شامل ہیں۔

پہلے مرحلے میں 10 عیسائی اور 5 مسلمان ہلاک ہوئے، بعد میں دو مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، اس طرح ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد 7 ہوگئی۔

بعد ازاں دو عیسائی زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگئے، جبکہ 2 افراد گزشتہ روز ایک خاتون کی گاڑی کے نیچے آکر ہلاک ہوئے، جو مشتعل ہجوم سے بچنے کے لیے تیزی سے اپنی گاڑی بھگا لے جانا چاہتی تھی۔

وفاقی وزیر داخلہ نے لاہور میں یوحنا آباد کے واقعے کے بعد دوافراد کو زندہ جلانے اور املاک کو نقصان پہنچانے کو بدترین دہشت گردی قرار دیا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ لوگوں کو جلانا بدترین دہشت گردی ہے اور جن افراد نے لوگوں کو زندہ جلایا، ان میں سے ایک ایک کو گرفتار کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں ہونے والا ردعمل ملک، قانون اور جمہوریت کے لیے تضحیک کا باعث ہے اور اشتعال پھیلانے والوں نے دہشت گردوں کے ایجنڈے پرعمل کیا۔

پوری قوم گزشتہ 14 سال سے حالات جنگ میں ہے، ایک طرف دہشت گرد ہمارے گھروں کو آگ لگائیں اور پھر ہمارے اپنے ہی لوگ ان کو ایجنڈے کو آگے بڑھائیں تو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ عوام کو خوفزدہ کیا جائے لیکن ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے۔

وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جاچکا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آسان اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔

مختصراً

  • حکومت ہر عبادت گاہ کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتی۔

  • سانحہ یوحنا آباد دلخراش واقعہ ہے۔

  • یوحنا آباد واقعے میں21 افراد مارے گئے جس میں14 عیسائی اور7مسلمان شامل ہیں۔

  • لوگوں کو زندہ جلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔

  • لاہور میں ہونے والا ردعمل ملک، قانون اور جمہوریت کے لیے تضحیک کا باعث ہے۔

  • اشتعال پھیلانے والوں نے دہشت گردوں کے ایجنڈے پرعمل کیا۔

اس سے قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سزائے موت کے منتظر شفقت حسین کی پھانسی کے حوالے سے بھی اظہار رائے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شفقت حسین کے کیس کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے اور نہ ہی اس معاملے پر سیاست کی جانی چاہیے۔

واضح رہے کہ شفقت حسین نے2001 میں 5 سالہ عمیرکوقتل کیا تھا، جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے اسے 2004 میں اس وقت پھانسی کی سزا سنائی گئی، جب اس کی عمر 14 برس تھی۔

یہ بھی پڑھیں:کیا ہم 14 سالہ 'دہشت گرد' کو پھانسی دیں گے؟

شفقت کی رحم کی اپیلیں 2006 میں ہائی کورٹ، 2007 میں سپریم کورٹ جبکہ 2012 میں صدر مملکت کی جانب سے مسترد کی جا چکی ہیں اور اسے 19 مارچ کو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ جیل ڈاکٹر کے مطابق شفقت حسین کی عمر25 سال ہے اور کسی بھی مرحلے پر شفقت حسین کی کم عمری کا نکتہ نہیں اٹھایا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ شفقت حسین کوقانون کے مطابق 19مارچ کوپھانسی دی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں