عمران خان کے دروازے پر دھرنا

عمران خان کی رہائشگاہ کے باہر مظاہرین کے خیمے — آن لائن فائل فوٹو
عمران خان کی رہائشگاہ کے باہر مظاہرین کے خیمے — آن لائن فائل فوٹو

صنوبر و دیگر اقسام کے گنجان سلسلے میں واقع چشمے کو عبور کرنے کے بعد ہم تنگ راستوں پر آگئے جو آہستگی سے ہی سہی مگر بے قاعدگی سے پھیلے ولاز کے قریب سے گزرتے ہوئے بنی گالا کی چوٹی تک جاتے ہیں جہاں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا شاندار محل موجود ہے۔

وہاں سب سے پہلی چیز جو ہمیں نظر آئی وہ ' انصاف پراپرٹی ڈیلر' کا ایک اشتہاری بورڈ تھا، اس سے کچھ میٹر بلند پر ' انصاف تندور' بھی موجود ہے۔

نوجوانوں کے گروپس جو کہ سب پختون تھے، ،ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے ڈھلوان سے نیچے کی جانب چلے گئے۔ ہماری گاڑی چکردار سڑک پر گھوم رہی تھی، کچھ موڑ لینے کے بعد ایک خیمہ بستی سامنے آگئی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ایک بیرئیر اور چیک پوسٹ تھی جو سبز و سرخ رنگ سے رنگے تھے۔ یہ عمران خان کی رہائشگاہ کا داخلی مقام ہے۔

یہاں ایسا کوئی سائن بورڈ نہیں تھا جس سے اس شاندار جائیداد کے مالک کی شناخت ہوسکے۔ اس علاقے میں درجنوں کی تعداد میں موجود مظاہرین میں سے ایک سید مہتاب شاہ نے بتایا " ہم نے یہاں سے وہاں سائن بورڈ اٹھا دیا ہے جس پر لکھا تھا انصاف ایونیو، اب ہم یہاں ایک اور بورڈ نصب کریں گے جس پر لکھا ہوگا ڈی چوک"۔

متعدد مرد سڑک سے ملحق دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور سامنے کی جانب دیکھ رہے تھے، جب میں نے ان کی ایک تصویر کھینچی تو انہوں نے فتح کا نشان بنادیا۔

جب ہم گھر کی جانب بڑھے تو سڑک کی دونوں جانب نصب خیموں میں آرام کرتے متعدد مظاہرین اپنے ہاتھ ہلا کر خوش آمدید کہنے لگے۔

داخلی دروازے کے ساتھ اور جنگل کے قریب دو مزید خیمے نصب تھے جہاں ایک درجن کے قریب خواتین جن کے چہرے برقعے میں چھپے تھے، کھڑی ہوئی تھیں۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) بورڈ ایمپلائیز ایسوسی ایشن کے صدر یونس مروت ان کے ساتھ نعرے بازی کررہے تھے۔

انہوں نے ہمیں بتایا " ہم یہاں بارہ اپریل سے خیمے لگائے ہوئے ہیں اور ہم صوبائی حکومت (کے پی حکومت) کے ان احکامات کے خلاف احتجاج کرہے ہیں جن میں ہم سے دوبارہ اہلیت ٹیسٹ دینے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ ہم خود کو ان پوزیشنز کے لیے اہل ثابت کرسکیں جن پر متعدد برسوں سے کام کررہے ہیں"۔

یونس مروت کا کہنا تھا " ہم نے ان ٹیسٹوں کو اپنی بھرتی کے وقت ڈبلیو ڈبلیو ایف بورڈ اسکولز میں پاس کیا تھا، تو آخر وہ کیوں ہمیں نئے ٹیسٹوں اور انٹرویوز کے لیے مجبور کررہے ہیں؟ مزید برآں ہمیں نئے ٹیسٹ دینے پر کوئی اعتراض نہیں اگر وہ تمام محکموں کے لیے لازمی قرار دیا جائے، مگر خیبر پختونخوا حکومت نے صرف ہمارے ادارے کو ہدف بنایا ہے کیونکہ وزیراعلیٰ ہمیں ملازمت سے نکال کر اپنے لوگوں کو بھرتی کرنا چاہتے ہیں"۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اپنی درخواست صوبائی حکومت کے سنیئر عہدیداران تک پہنچائی ہے تو ان کا جواب تھا " ہم عمران خان سے دوبار مل چکے ہیں اور انہوں نے کہا کہ وہ ایک منصف کا کردار ادا کریں گے، مگر ہم اب تک ان کے اقدامات کا انتظار کررہے ہیں، ہم اس وقت تک گھر واپس نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کرلیے جاتے"۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ان مظاہرین کے مطالبات میں ان 29 افراد کی رہائی بھی شامل ہے جنھیں وفاقی حکومت نے چند روز قبل ایک ہائی وے بلاک کرنے پر گرفتار کرلیا تھا، جبکہ دیگر مطالبات میں برطرف ملازمین کی بحالی اور نئے ٹیسٹوں و انٹرویوز کی شرط کی واپسی وغیرہ شامل ہیں۔

اس وقت جب یونس مروت ہمیں یہ بتارہے تھے پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک استاد اسما خٹک نے مداخلت کی " ہم ٹیسٹوں سے خوفزدہ نہیں، مگر ابھی تو یہ ایک توہین لگتے ہیں اور ہم اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں"۔

صوابی سے تعلق رکھنے والی زیب النساءنے کہا " ہم یہاں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے موجود ہیں، کسی کی برائی کے لیے نہیں"۔

صوابی سے تعلق رکھنے والی ایک اور استاد رعنا سید کا کہنا تھا کہ انہیں پی ٹی آئی سربراہ کی رہائشگاہ کے باہر خیموں میں رہنے پر متعدد مسائل کا سامنا ہے مگر ہمارا عزم اب بھی مضبوط ہے " ہم یہاں بارہ اپریل سے موجود ہیں، یہاں پانی یا بیت الخلاءموجود نہیں، مگر ہم اس وقت یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کرلیا جاتا"۔

اسماءخٹک نے پیچھے سے چلا کر کہا " ہمارا بس ایک پیغام عمران خان تک پہنچا دیں کہ جن کا عزم مضبوط ہوتا ہے اور جو اللہ کی جانب دیکھتے ہیں وہ طوفانی لہروں سے پریشان نہیں ہوتے"۔

اس وقت جب سورج آہستہ آہستہ بنی گالا کی پہاڑی کے پیچھے گم ہونے لگا، کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے عبدالوہاب نے ایک چھوٹے ایل پی جی سلنڈر سے منسلک چولہے کو روشن کرکے اپنے خیمے کے ساتھ رکھ دیا اور ایک بڑے برتن میں کھانا بنانے لگے۔

انہوں نے بتایا " ہم یہاں اپنے لیے کھانا خود تیار کرتے ہیں اور ہم یہاں طویل عرصے تک رہنے کے لیے تیار ہیں"۔

سید مہتاب علی شاہ کا کہنا تھا " عمران خان نے ڈی چوک پر 126 روز تک دھرنا دیا، ہم یہاں 226 دن تک بیٹھنے کے لیے تیار ہیں اور اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو اس سے بھی زیادہ دن رہ سکتے ہیں، ہم عمران خان کے بارے میں اب بھی اچھی سوچ رکھتے ہیں کیونکہ ان کی اہلیہ ریحام یہاں آئیں اور ہم سے ملیں اور اس کے بعد عمران خان نے ہمیں ملاقات کے لیے اپنے گھر میں مدعو کیا۔ ہم نے ان کا راستہ بلاک نہیں کیا مگر میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مستقبل میں اس صورت میں کیا ہوگا اگر مظاہرین کی پریشانی بڑھتی رہی"۔

جب ہم مہتاب علی شاہ سے بات کررہے تھے اس وقت ہم نے کچھ خواتین مظاہرین کو ایک وین میں بیٹھ کر جاتے ہوئے دیکھا جس پر مہتاب علی شاہ نے بتایا " ہمیں ڈبلیو ڈبلیو ایف بورڈ سے اچھی تنخواہ ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر روزانہ خیبرپختونخوا سے اپنے گھروں سے یہاں آنے جانے کا خرچہ اٹھاسکتے ہیں"۔

سورج تو عمران خان کے قلعے کے پیچھے غروب ہوگیا مگر مظاہرین اب بھی انتظار کررہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں