امریکا میں نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا، پریانکا

29 مئ 2015
پریانکا چوپڑا — فوٹو بشکریہ فلمی منترا
پریانکا چوپڑا — فوٹو بشکریہ فلمی منترا

بولی وڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا کی نظریں اس وقت اپنے پہلے امریکی سیریل 'اے بی سی کانٹیکو' پر مرکوز ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ اسکول کے دوران امریکا میں ان پر متعدد مرتبہ نسل پرستانہ جملے کسے گئے۔

حال ہی میں پریانکا نے مس مالنی شو میں انٹرویو کے دوران بتایا کہ زمانہ طالبعلمی کے دوران جب وہ امریکا میں اسکول جاتی تھیں تو انڈین ہونے کی وجہ سے ان کا مزاق اڑایا جاتا تھا اور ان پر نفرت آمیز جملے کسے جاتے تھے اور اسی وجہ سے وہ واپس ہندوستان چلی گئیں۔

پریانکا کے مطابق وہ اس وقت سولہ برس کی تھیں اور امریکا میں انہیں 'جہاں سے آئی ہو وہاں ہی واپس چلی جاؤ' اور 'دیسی' جسے جملوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

پریانکا کا کہنا تھا کہ 'انڈین ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنے بڑے گھرانوں پر فخر ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر گاڑی سے 15 لوگ ہی نکلیں'۔

پریانکا کے مطابق 'کانٹیکو' کا حصہ بننے سے پہلے انہوں نے اپنے کردار کے متنازع نہ ہونے کی تسلی کر لی تھی۔

پریانکا کا اپنے امریکی سیریل کے حوالے سے کہنا تھا کہ 'جب اے بی سی نیٹ ورک کی ٹیم اس سیریل کے خیال کے ساتھ ان کے پاس آئی تو میں نے ان کے ساتھ کام کا سوچا بھی نہیں تھا کہ کیونکہ مجھے صرف عجیب سی ہندوستانی لڑکی کے کردار کی پیشکش کی جا رہی تھی۔ میں نے واضح طور پر انہیں بتایا کہ مجھے بطور اداکار کاسٹ کیا جائے اور صرف ایک بہتر کردار ہی دیا جائے جب کہ کہانی کا ہندوستانی ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے'۔

پریانکا کے علاوہ بھی کئی بولی وڈ اداکاروں کو امریکا میں نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑ چکا ہے۔

2009 میں اداکار شاہ رخ خان کو امریکی ایئرپورٹ پر حراست میں لے لیا گیا تھا جس کے حوالے سے شاہ رخ خان کا کہنا ہے کہ صرف مسلمانوں والا نام ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ایسا کیا گیا۔

یاد رہے کہ اس واقعے کے اگلے سال ہی شاہ رخ خان کی فلم مائے نیم از خان ریلیز ہوئی تھی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Sana May 29, 2015 08:29pm
یہ بات تو امریکہ جا کر ہی پتا چلتی ہے جس ملک کے خواب سب دیکھ دیکھ مرتے ہیں وہاں جاتے ہی آنکھیں کھل جاتی ہیں
muzammil May 29, 2015 10:09pm
@Sana right sana america is so difficult