ترکی: حکمران جماعت اکثریت سے محروم

اپ ڈیٹ 09 جون 2015
کردوں کی حامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں پہنچنے پر ایک خاندان کے لوگ خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
کردوں کی حامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں پہنچنے پر ایک خاندان کے لوگ خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

انقرہ: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو انتخابات میں شدید دھچکا لگا ہے اور ان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی 13 برسوں میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں اکثریت سے محروم ہوگئی ہے۔

یاد رہے کہ اردوان نے 2003ء میں بطور وزیر اعظم ترکی کا اقتدار سنبھالا تھا، گزشتہ سال وہ صدر منتخب ہوئے تھے۔

صدر طیب اردوان ترکی میں صدارتی نظام کے نفاذ کے خواہشمند تھے، جس کے لیے انہیں دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔ لیکن انتخابات کے نتائج سے انہیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

زیادہ سے زیادہ اختیارات کے حصول کی خواہش نے صدر اردوان کے خلاف ترک عوام میں خدشات پھیل رہے تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں توقع کے برعکس انتخابی نتائج حاصل ہوئے ہیں۔


یہ بھی ملاحظہ کیجیے: ترک صدر طیب اردوگان کے نئے محل کی تعمیر کی منفرد وجہ


تفصیلات کے مطابق ترکی کی پارلیمنٹ میں اکثریت کے حصول کے لیے 276 نشستیں درکار ہوتی ہیں، لیکن جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو 258 نشستیں مل سکی ہیں۔

چنانچہ اب حکمران جماعت کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے کسی دوسری پارٹی سے اتحاد کرنا ہوگا۔

اس مرتبہ انتخابات کی حیران کن بات یہ ہے کہ کردوں کی حامی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو پہلی مرتبہ دس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ اس پارٹی کو پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے دس فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری تھا۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما صلاح الدین دمیترس نے کہا کہ ان کی پارٹی کو تمام مشکلات کے باوجود کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ جنوب مشرقی ترکی میں تیس سال سے كردستان کی علیحدگی کے لئے جاری جدوجہد میں 40 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

مبصرین کے خیال میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے ساتھ حکومتی اتحاد میں دائیں بازو کی نیشنل موومنٹ پارٹی کی شمولیت کا امکان ہے، جسے لگ بھگ 16 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

تاہم اس پارٹی کے ایک رہنما نے صدر اردوان کی پارٹی کے ساتھ معاہدے کو مسترد کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر حکمران جماعت حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار نہ ہو تو ترکی میں نئے انتخابات منعقد کیے جائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں