کوئٹہ: ایمرجنسی آپریشن سینٹرای او سی نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں 84 فیصد بچے حفاظتی ٹیکوں سے محروم ہیں اور مختلف قابل علاج اور مہلک بیماریوں کا شکار ہیں۔

ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر سید سیف الرحمن کے مطابق سو میں سے صرف 16 فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے گئے ہیں اور یہ صوبے کے لیے ایک خطرناک صورتحال ہے۔

بلوچستان ملک میں سب سے زیادہ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے البتہ صوبائی محکمہ صحت کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کم ترقی یافتہ اور سماجی اعشاریوں کے اعتبار سے دیگر صوبوں سے پیچھے ہے۔

حکومت بلوچستان نے پولیو کے خاتمہ کے لیے بچوں کی حفاظتی ٹیکوں کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ معمول کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کو بیک وقت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ای او سی اور ای پی آئی کے حکام نے حال ہی میں اجلاس منعقد کیا جس میں تمام بچوں کے لیے حفاظتی ٹیکوں کو یقینی بنانے کے لئے ایک موثر پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت کے حکام نے صوبے میں حفاظتی ٹیکوں کے لیے تکنیکی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

تاہم محکمہ صحت بلوچستان کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ صوبے میں زیادہ تر ای پی آئی مراکز غیر فعال ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ضلع قلعہ عبداللہ کے 27 ای پی آئی مراکز میں سے صرف 10 کام کرتے تھے، البتہ صوبہ کے باقی 31 ضلعوں میں بھی کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت نے پولیو، خسرہ، چکن پاکس، ہیپاٹائٹس اور دیگر پانچ قابل علاج بیماریوں کے خاتمے کے لئے ای پی آئی کا آغاز کیا ہے البتہ اس کے باوجود ہر سال ان قابل علاج بیماریوں سے لاتعداد بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں