کراچی: گرمی کی شدت سے ایک ہزار سے زیادہ کی تعداد میں جانوں کے زیاں کو دیکھتے ہوئے ماہرین صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دوبارہ اس سانحے کو روکنے کے لیے کمیونیٹیز کی شمولیت کے ساتھ ایک حکمت عملی تیار کرے۔

ماہرین کے مطابق کنکریٹ کی تعمیرات میں اضافے اور شہر میں پارکوں اور گرین بیلٹس کی کمی بھی شدید گرمی کی حالیہ لہر کا ایک سبب ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ درختوں اور سبزے کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی علاقے کے درجہ حرارت کو کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

ورلڈ وائڈ فنڈ برائے نیچر پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف-پی) کے سندھ میں ریجنل ڈائریکٹر رب نواز کہتے ہیں’’گرمی کی لہر کے سبب رونما ہونے والا یہ سانحہ عوام اور حکومت سے بیداری کا مطالبہ کررہا ہے۔ اس وقت ضرورت ایسی آگاہی پیدا کرنے کی ہے کہ گرم موسم کا کس طرح مقابلہ کیا جائے اور انتہائی خطرے سے دوچار آبادی میں خود کو کس طرح محفوظ رکھا جائے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، خاص طور پر درجہ حرارت کا اضافہ پاکستان میں پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں بہت زیادہ نمایاں ہوا ہے، جبکہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں موجودہ صورتحال تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’اگرچہ پاکستان میں کاربن کا اخراج نسبتاً کافی کم ہے، اور موسمیاتی تبدیلی میں اس کا حصہ نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس عالمی مسئلے کو دنیا بھر کے ملکوں کی جانب سے تخفیف اور مطابقت کی بنیادوں پر فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو -پی کی موسمیاتی اعدادوشمار اور دریائے سندھ کے خطے کے تجزیے پر مشتمل رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے میدانی علاقوں سمیت پاکستان کے بہت سے حصوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1996ء کے بعد سے موسمیاتی ماڈلز اشارے دے رہے ہیں کہ پاکستان میں گرمی کی لہر کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں بھاری اقتصادی اور انسانی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ یہ رجحان مستقبل میں برقرار رہنے کا امکان ہے اس لیے کہ عالمی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔

رب نواز نے بتایا سبز میدانوں کی کمی اور کنکریٹ کی تعمیرات میں اضافہ درجہ حرارت میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔ مزید یہ کہ نئے ترقیاتی منصوبے اور رہائشی کالونیاں جنگلات کی موجودگی کے لیے خطرات پیدا کررہی ہیں، جس سے محض گرین ہاؤس گیس میں اضافہ ہی نہیں ہوگا، بلکہ سخت موسم سے مقابلہ کرنے کے لیے ہماری قوت مدافعت بھی کم ہوجائے گی۔

موسمیاتی تبدیلی کے سینئر ماہر اور عالمی موسمیاتی تنظیم کے ایشیائی سیکریٹری جنرل کے خصوصی مشیر ڈاکٹر زمان چوہدری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی نے پہلی مرتبہ اس قدر شدید گرمی کا تجربہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ تقریباً چار سے پانچ دنوں تک جاری رہی۔ اس شہر میں اس طرح کی شدید گرمی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ان رپورٹوں کو مسترد کردیا کہ شہر میں ایک دہائی کے بعد بیس جون کو زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ کا تجربہ کیا گیاتھا۔

ڈاکٹر زمان چوہدری نے کہا کہ حکومت دیگر ملکوں سے سبق سیکھ سکتی ہے، جنہوں نے اسی طرح کی آفت کا سامنا کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اچھی مثال ہندوستان کے شہر احمدآباد کی ہے، اپنی غریب آبادی کو گرمی کی لہر سے بچانے کے اس کے منصوبے پر ہندوستان کے دوسرے حصوں میں عمل نہیں کیا گیا۔ اس ہندوستانی ریاست میں 2010ء کے دوران گرمی کی لہر کے نتیجے میں لگ بھگ ایک ہزار تین سو افراد کی اموات کے بعد اس کا یہ منصوبہ سامنے آیا تھا۔

2010ء کی اس آفت کے بعد احمد آباد کے حکام نے شدید گرمی کے خلاف ابتدائی وارننگ سسٹم تیار کیا، اس کے ساتھ ساتھ پانی کے اسٹیشن اور عوامی مقامات، شاپنگ مالز، مندروں وغیرہ پر ٹھنڈی جگہیں قائم کی گئیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف-پی کے موسمیاتی تبدیلی منصوبے کے سینئر پروجیکٹ منیجر علی دہلوی کہتے ہیں کہ موسمیات سے متعلق خطرات کے غریب اور محروم آبادی کی زندگیوں پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے تھے۔

لہٰذا موسمیاتی تبدیلی کی نگرانی اور اس کے اثرات کے تجزیے کو سائنسی بنیادوں پر منظم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو مختلف سطح پر مطابقت کے منصوبے تیار کرنے اور وسیع ترقیاتی اسکیموں کو موسمیاتی تبدیلی کے تحفظات کے ساتھ منسلک کی ضرورت ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو-پی نے جمعرات کو جاری کیے گئے ایک بیان میں میڈیا پرزور دیا ہے کہ وہ عوام کو اس بات کی تلقین کریں کہ وہ پانی پیتے رہنے، شدید گرمی کے اوقات میں دھوپ میں نکلنے سے گریز کرکے، چھتری اور ٹوپیوں کے استعمال، کیفین اور میٹھے مشروبات سے گریز اور ہلکے پھلکے کپڑے پہن کر شدید گرمی کا مقابلہ کریں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں شدید موسم کا پیٹرن خاص طور پر درجہ حرارت میں اضافہ متواتر طوفانوں، غیرمتوقع بارشوں، بڑے سیلابوں اور شدید خشک سالی کا سبب بن رہا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں نے ملک کی ماحولیاتی اور معاشی و سماجی صورتحال میں تقریباً انتہائی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔

اس بیان میں موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کی 2014ء کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق امکان ہے کہ یورپ، ایشیا اور آسٹریلیا کے بڑے حصوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگا۔

اس رپورٹ میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے وسطی حصے کے بعد سے انسانی اثرات عالمی سطح پر روزانہ کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنے ہیں اور بعض مقامات پر گرمی کی شدت دوگنی ہونے کا بھی امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں