مسیحی جوڑے کو ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت سے بچالیا گیا

اپ ڈیٹ 03 جولائ 2015
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

لاہور: ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق پولیس نے ایک مسیحی جوڑے کو ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت سے بچالیا، اور تشدد پر اکسانے کے الزام ایک مذہبی پیشوا کو گرفتار کرلیا۔

مشتعل ہجوم اس مسیحی جوڑے کو توہین کے الزام میں ہلاک کرنے کی کوشش کررہا تھا۔

یہ واقعہ منگل کو پنجاب میں مکی گاؤں میں پیش آیا تھا، حکام کی جانب سے غیرمعمولی نوعیت کی کامیاب مداخلت سے اس مسیحی جوڑے کی جان بچ گئی۔

جبکہ اس ملک میں توہین کے غیرثابت شدہ الزامات کا نتیجہ خدائی فوجداروں کے ہاتھوں خونی موت کی صورت میں ہی نکلتا آیا ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ان پڑھ مسیحی جوڑا پرانا اشتہاری پینافلیکس کہیں سے اُٹھالایا تھا، جس پر مختلف کالجوں کے نام اور ان کے حوالے سے سلوگن تحریر تھے۔ یہ لوگ اپنے گھر میں سونے کے لیے اسے بطور بستر کے استعمال کررہے تھے۔

مبینہ طور پر کالج کے سلوگن کے ساتھ قرآن پاک کی کچھ آیات بھی تحریر تھیں، جس کی وجہ سے ایک مقامی حجام کے ساتھ ساتھ دو مذہبی پیشواؤں نے اس جوڑے پر توہین کے ارتکاب کا الزام عائد کردیا۔

سہیل ظفر چٹھہ نے بتایا کہ ’’اس قصبے کے مسلمانوں نے اکھٹا ہوکر اس غریب جوڑے کو گھر سے گھسیٹ کر باہر نکالا، وہ نہیں جانتے تھے کہ انہوں نے آخر کیا کیا ہے۔ ہجوم انہیں مار مار کر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔‘‘

انہوں نے بعد میں اے ایف پی کو بتایا کہ ’’پولیس نے بروقت مداخلت کی اور اس جوڑے کو ہجوم کے ہاتھوں مرنے سے بچالیا، انہیں بعد میں لاہور منتقل کرکے مسیحی برادری کے عمائدین کے حوالے کردیا گیا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان میں سے ایک مذہبی پیشوا کو گرفتار کرلیا ہے، جبکہ باقی دیگر اور حجام تاحال مفرور ہیں۔ بعض مقامی لوگوں سے پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران معلوم ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ حجام کی نیت اس مسیحی جوڑے کے گھر پر قبضہ کرنے کی ہو۔

ایک مسیحی اور انسانی حقوق کے وکیل ندیم انتھونی نے پولیس کی اس کارروائی کو سراہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ پولیس نے اپنے فرائض پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کررہی ہے اور اس طرح کے کیسز میں ملزمان کی حفاظت کررہی ہے۔‘‘ انہوں نےتین دیگر مثالیں بھی بیان کیں، جب حکام نے بروقت اقدام کیا تھا۔

ریاست اور اس کے بازو اگر اپنے فرائض کی ادائیگی جاری رکھتے ہیں تو ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی، جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں ۔‘‘

مسیحی برادری کے افراد جو پاکستان کی بیس کروڑ کی مسلم اکثریت کی آبادی میں لگ بھگ دو فیصد حصہ ہیں، حالیہ برسوں میں پُرتشدد ہجوام اور عسکریت پسندوں دونوں کی جانب سے تیزی کے ساتھ ہدف بنایاگیا ہے۔

یاد رہے کہ جبری مشقت کا شکار مزدور شہزاد مسیح اور اس کی حاملہ بیوی شمع بی بی کو پندرہ سو افراد سے زیادہ کے ہجوم نے تشدد کے بعد اینٹوں کی ایک بھٹی میں پھینک کر زندہ جلادیا تھا۔

انہوں نے یہ ظلم محض یہ افواہیں سننے کے بعد کیا تھا، کہ اس جوڑے نے قرآن کے صفحات کچرے میں پھینک دیے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں