کیا کچے گھروں میں رہنے والے محب وطن نہیں؟

اپ ڈیٹ 06 اگست 2015
اسلام آباد کی ایک کچی آبادی میں ایک خاتون میر جان اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑی ہے۔ — AFP
اسلام آباد کی ایک کچی آبادی میں ایک خاتون میر جان اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑی ہے۔ — AFP

پاکستان کے وجود میں آنے سے اب تک ہر سال اگست کے مہینے میں پاکستانی عوام کو متحد کرنے اور ایک صف میں لا کر کھڑا کرنے کے لیے ریاست کی طرف سے مختلف سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ پچھلے کچھ برس سے عوام کے اندر پاکستانیت کا جذبہ ابھارنے کے لیے ریاستِ پاکستان کے اقدامات میں اضافہ اور تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

مثلاً اگست کے مہینے میں مختلف ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں جن سے پاکستانیت کو فروغ ملے۔ ہر دن کا آغاز قومی ترانوں سے کیا جاتا ہے، یعنی ریاست یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہمیں تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر محب وطن پاکستانی کی طرح سوچنا چاہیے، اور ریاست تمام پاکستانیوں کو برابری کی نظر سے دیکھتی ہے۔

لیکن اس سال اگست کی پہلی صبح پاکستانی ریاست اور اس کے اشرافیہ نے پاکستان کے محنت کش اور غریب طبقے کو پاکستانی ہونے کے جرم کا احساس دلایا۔ یہ احساس اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون میں واقع محنت کش طبقے کی ایک آبادی، جو کہ آٹھ ہزار رہائشیوں پر مشتمل تھی، کو مسمار کر کے دلایا گیا۔

اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات پاکستانی اشرافیہ میں آئی الیون کی آبادی کو لے کر پایا جانے والا تاثر ہے۔ اگست کے مہینے میں اپنے گھر کی چھت پر سبز ہلالی پرچم اور جھنڈیاں لگانے والوں کی کثیر تعداد آئی الیون کے ان لوگوں کو جو بے گھر کیے گئے ہیں، دہشت گرد اور جرائم پیشہ سمجھتی ہے۔

لوگ اس مفروضے پر یقین رکھتے ہیں کہ ایسی آبادیوں میں بسنے والے سارے پشتون دہشت گرد ہیں، لہٰذا پاکستان میں ان دہشت گردوں کو رہنے کا حق نہیں دیا جانا چاہیے۔ یوں بھی اسلام آباد یا بڑے شہروں کے ارد گرد بسنے والے ان محنت کشوں کو جرائم پیشہ افراد ہی گردانا جاتا ہے۔

لیکن یہ تمام الزامات لگانے سے پہلے ’محب وطن‘ پاکستانی یہ بھول جاتے ہیں کہ ان شہروں کے عالی شان محلات کے رہائشیوں کا ایک دن بھی گھریلو ملازمین کے بغیر نہیں گزر سکتا اور ان آبادیوں میں رہنے والے زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو امیروں کے ان بنگلوں کی دیکھ ریکھ اور آرائش کرتے ہیں۔

پاکستانیت کا درس دینے والی ریاست 68 برس بعد بھی اپنے شہریوں کو ایک ایسا ماسٹر ہاؤسنگ پلان دینے میں ناکام رہی ہے جس میں غریب آدمی کو بھی چھت کا بنیادی حق دیا جاسکے۔ ریاست ہر سال ہزاروں ایکڑ کی اراضی اپنے مقتدر اداروں، امیر طبقے، اور ریاستی نمائندوں کو بغیر حساب کتاب کے الاٹ کردیتی ہے، اور غریبوں کو ایک کچی چھت تلے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ریاست کے ’فرض شناس‘ نمائندوں کو ہزاروں ایکڑ غیر قانونی زمین پر محیط مدارس بھی دکھائی نہیں دیتے جو دن رات انتہا پسندی کے فروغ میں کوشاں ہیں۔ طاقت کے اندھا دھند استعمال سے آئی الیون کی آبادی خالی کروانے اور اس میں مقیم لوگوں کو مار بھگانے کا یہ عمل ریاست کے غریب کُش نظریے کا عکاس ہے۔

تو جس ریاست میں رہائش اور چھت کے حق کو لے کر اتنی بڑی تفریق پائی جاتی ہو وہاں ہر سال اگست میں سرکاری عمارتوں پر جتنے مرضی سبز ہلالی پرچم لہرا لیں، ٹی وی پروگراموں میں ملی ترانے پڑھوا لیں اور چاہے پاکستانیت کو جتنا فروغ دیں لیں۔ امیر اور غریب کی تفریق کو ختم کیے بغیر پاکستان تمام پاکستانیوں کے لیے ایک جیسی ریاست نہیں بن سکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

Rehan Aug 06, 2015 02:55pm
As we now that these people are illegally staying there. Most of them are afghan. If govt is taking some action against them you should support them instead of supporting these people. They have their temprary houses over hare. Think of those IDPS who are moved from their house during the operation from their ownd land and houses. I fell shame for your thoughts.
Ameet Kumar Aug 06, 2015 05:07pm
Ap ne bilkul dursat kaha yahan ek ese samaj or system ki zrurat he jahan tafreek na pai jati ho or ye sb sirf SOCIALISM me hi mumkin he.
Sharminda Aug 06, 2015 05:54pm
Nothing can justify illegal entrenchment. Whether you live in kachaa or pakka.
Muhammad Shareef Aug 06, 2015 06:19pm
A balanced article reflecting the role of state.. we expect such more stuff in times ahead
asma Aug 07, 2015 11:10am
@Rehan i agree with yoi
Mohammed Asim Baig Aug 09, 2015 01:30pm
I agree with writer, If they are illegal why Govt. not deport them otherwise Govt. should provide the shelter before destroying the houses,