جماعت اسلامی کے رہنما و سابق سینیٹر مشتاق احمد نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ جلد رہا ہو سکتی ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کی سماعت کے بعد سابق سینیٹر مشتاق احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہر سماعت کے بعد ہمارے پاس نئے راستہ سامنے آتے ہیں، عافیہ صدیقی کیس کے وکیل عمران شفیق کافی بہادری اور جوان مردی سے کیس لڑرہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے سامنے روشنی بڑھتی جارہی ہے، ڈاکٹر عافیہ جلد رہا ہو سکتی ہیں، ثابت ہو گیا ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی چابی اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کے پاس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکمران اور وزارت خارجہ سنجیدہ ہوں، عدالت اور وکلا کی جانب سے بہت تجاویز سامنے آچکی ہیں، امریکا میں الیکشن ہونے جارہے ہیں، آئندہ 5، 6 ماہ بہت اہم ہیں، عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ان 5، 6 ماہ میں بہت کام ہوسکتا ہے۔

سینیٹر مشتاق نے کہا کہ امریکی صدر کے پاس بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی کی سزا معاف کردے، ماضی میں امریکا نے ایران اور روس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا ہے، یہ بہت ہی آسان طریقہ ہے جس کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے، اصل مسئلہ ہمارے حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کا ہے۔

انہوں نے تنبیہ دی کہ میں خبردار کرتا ہوں اگر حکمرانوں نے یہ وقت ضائع کیا تو عوام موجودہ حکومت کو کبھی معاف نہیں کرے گی، وفاقی حکومت اقدامات سے ثابت کرے وہ اس عمل میں سنجیدہ ہیں، میں خود امریکا جارہا ہوں، کوشش ہے امریکی عوام، اوورسیز پاکستانیوں اور میڈیا کے ذریعے ایک رہائی کا ماحول بنایا جائے گا۔

سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کی قید کو 21 سال گزر چکےُہیں، وہ انتہائی مشکل حالات میں ہیں، ڈاکٹر عافیہ امریکا کی بدنام زمانہ جیل میں قید ہیں جو ہرقسم کے تشدد کے لیے مشہور ہے ، عوام ہمارا ساتھ دے، آٹھ کھڑے ہوں تو آئندہ 5، 6 ماہ میں رہائی ممکن ہوسکتی ہے۔

عافیہ صدیقی کے خلاف کیس

عافیہ صدیقی کو 2010 میں ایک امریکی وفاقی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی تھی جب وہ افغانستان میں امریکی حراست میں تھیں، اس وقت انہیں فوجیوں پر فائرنگ کرنے کے علاوہ 6 دیگر الزامات کے تحت انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

ان کے وکلا نے 12 سال کی سزا کی درخواست کی تھی جب کہ استغاثہ نے عمر قید کی سزا کے لیے دلائل دیے تھے۔

2009 میں ایک جیوری نے انہیں 7 الزامات پر مجرم قرار دیا تھا جن میں قتل کی کوشش کے 2 الزامات بھی شامل تھے، جیوری نے قرار دیا تھا کہ قتل کی کوشش کے الزامات میں کوئی پیشگی ارادہ نہیں تھا۔

استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ عافیہ صدیقی نے امریکی فوجی کی رائفل سے فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عافیہ صدیقی نے بیان دیا تھا کہ وہ صرف کمرے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھیں، اس وقت وہ کسی خفیہ جیل میں منتقل کیے جانے کے خوف میں مبتلا تھیں۔

عافیہ صدیقی کے اہل خانہ اور حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا تھا جنہوں نے انہیں امریکی تحویل میں منتقل کر دیا تھا، تاہم امریکی اور پاکستانی حکام دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔

عافیہ صدیقی نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور برینڈیز یونیورسٹی سے حیاتیات اور نیورو سائنس میں ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں جب کہ وہ 1991 اور جون 2002 کے درمیان امریکا میں مقیم رہیں، انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے ہتھیار پکڑنے یا اسلحے کے استعمال سے واقفیت رکھنے سے انکار کیا تھا۔

افغانستان میں دریافت ہونے سے قبل وہ مبینہ طور پر 5 سال تک لاپتا رہی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں