سر کٹا مرغا 18 ماہ تک کیسے زندہ رہا؟

اپ ڈیٹ 11 ستمبر 2015
سر کٹ جانے کے باوجود زندہ رہنے والا مرغا—
سر کٹ جانے کے باوجود زندہ رہنے والا مرغا—

سر کٹے انسان کی کہانیاں یا فلمیں تو آپ نے دیکھی ہوں گی مگر کیا سر کٹنے کے باوجود کافی عرصے تک زندہ رہنے والے مرغے کی داستان کے بارے میں آپ کو معلوم ہے؟

یہ ہے مائیک نامی ایسا مرغا جس کا سر 10 ستمبر 1945 کو ایک امریکی فارمر لوئیڈ اولسن نے کاٹا، لیکن وہ مرا نہیں بلکہ 18 ماہ تک زندہ رہا۔

مائیک جسے میریکل مائیک یا سرکٹے مائیک کا نام بھی دیا گیا، اُس وقت پانچ سال کا تھا جب کولوراڈو سے تعلق رکھنے والے لوئیڈ اولسن نے اس کا سر کاٹا کیونکہ اس کی بیوی کلارا نے اپنی ماں کو رات کے کھانے کے لیے مدعو کیا تھا۔

لوئیڈ اولسن کو معلوم تھا کہ اس کی ساس ہمیشہ مرغے کی روسٹ گردن سے لطف اندوز ہوتی ہے،لہذا اسی لیے اس نے گردن کا بیشتر حصہ بچاتے ہوئے سر کا اگلا حصہ کاٹا مگر حادثاتی طور پر اس کی کلہاڑی نے مائیک کی شہہ رگ، ایک کان اور دماغ کے بیشتر حصے کو نقصان نہیں پہنچایا۔

یہی وجہ ہے کہ لوئیڈ اولسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مائیک مرا نہیں بلکہ پورے 18 ماہ تک بغیر سر کے ہی زندہ رہا۔

سر کٹنے کے بعد مائیک دیگر مرغیوں کی طرح یہاں وہاں بھاگتا رہا مگر جلد ہی سکون سے بیٹھ گیا اور صرف یہی نہیں اس نے زمین پر سے غذا بھی اٹھانے کی کوشش کی، اس دوران لوئیڈ اولسن اسے چھوڑ کر چلا گیا اور اگلی صبح مرغے کو اُس پوزیشن میں سوتے ہوئے دیکھا کہ اُس نے اپنے سر کے کٹے ہوئے حصے کو پروں میں چھپا رکھا تھا، جس کے بعد لوئیڈ کو فکر ہوئی اب سر کٹے مرغے کو کھلایا کیسے جائے، لہذا اس نے مائیک کی شہہ رگ میں خوراک اور پانی آئی ڈراپر کی مدد سے ڈالنا شروع کردیئے۔

مائیک کی اس معجزانہ زندگی کے بارے میں آرکنساس یونیورسٹی کے نیورو بائیولوجسٹ اور پولٹر سائیکلوجسٹ وائنی جے کوینزل نے بتایا کہ چونکہ ایک مرغی کی کھوپڑی دو بڑے سوراخوں پر مشتمل ہوتی ہے تاکہ اس کی آنکھیں اپنی جگہ پر رہیں، اسی لیے دماغ باقی ماندہ جگہ پر 45 ڈگری کے زاویے سے موجود ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر سر کا اگلا حصہ اڑایا جائے تو دماغ کا بڑا حصہ ٹھیک ٹھاک حالت میں موجود ہوتا ہے جو کہ فعال ہوتا ہے اور بچنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

مائیک کا حرام مغز اُس کی آنکھوں کے بہت بڑے سوراخوں کے نیچے تھا اور کلہاڑی کا درست وار نہ ہونے کی وجہ سے وہ بنیادی افعال اور سانس لینے جیسے کام کرنے کی اہلیت رکھتا تھا، ہاں لیکن وہ اپنی آنکھوں سے ضرور محروم ہوگیا۔

مائیک اپنی اس حالت میں بھی اتنا خوش باش تھا کہ لوئیڈ اولسن نے اپنے کرشماتی مرغے کے ساتھ سڑک کے راستے قومی ٹور کا فیصلہ کیا اور اسی زمانے میں ٹائم میگزین اور لائف میں اس حوالے سے فیچرز بھی چھپے، نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج ہوا اور انھوں نے امریکی عوام کے لیے اپنے سائیڈ شوز کا بھی انعقاد کیا، سب سے دلچسپ چیز یہ تھی کہ مائیک کا اپنا منیجر بھی تھا، مختصر یہ ہے کہ اس مرغے نے لوئیڈ اولسن کی قسمت سنوار دی۔

ایک کتاب میں تو یہ بھی آیا ہے " اپنی شہرت کے عروج پر مائیک ماہانہ ساڑھے چار ہزار ڈالرز کما رہا تھا اور اس کی اپنی قیمت دس ہزار ڈالرز تک پہنچ گئی تھی۔ مائیک کی کامیابی کے نتیجے میں لوگوں نے دھڑادھڑ مرغوں کے سر کاٹ کر انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کی مگر کوئی بھی ایک یا دو دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکا"۔

لیکن ایک روڈ ٹور کے دوران مائیک کی موت واقع ہوگئی کیونکہ کچھ کھانے کے دوران سانس کی نالی میں غذا جانے سے وہ دم گھٹنے کے باعث مرگیا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ سر کٹنے کے اٹھارہ ماہ بعد مائیک کے وزن میں نمایاں اضافہ ہوا اور وہ ڈھائی پونڈز سے بڑھ کر 8 پونڈز ہوگیا۔

لوئیڈ اولسن نے مرغے کی لاش یوٹاہ یونیورسٹی کے محققین کو پوسٹ مارٹم کے لیے دی جنھوں نے تصدیق کی کہ سر کٹنے کے بعد خون بہنے سے اُس کی موت اس لیے واقع نہیں ہوئی کیونکہ گردن میں خون کا ایک لوتھڑا بن گیا تھا جس نے اسے بچایا۔

اب لگ بھگ ستر سال بعد بھی کولوراڈو میں اس سر کٹے مرغے کو یاد کیا جاتا ہے اور یہاں کے مقامی افراد ہر سال مئی کے تیسرے ہفتے میں مائیک دی ہیڈ لیس چکن نامی فیسٹیول کا انعقاد کرتے ہیں ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں