• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:55pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 5:04pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:55pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 5:04pm

گاتا رہے میرا دل

شائع July 18, 2012

آخر وہ کیا عنصر ہے جس کی وجہ سے ایک اداکار دنیا سے منہ موڑ لینے کے باوجود طویل عرصے تک دلوں پر راج کرتا ہے۔

اگر آپ کا جواب یہ ہو گا کہ کسی بھی ادکار سے جڑے گیت اسے لازوال بنا دیتے ہیں۔ تووہ لوگ جو بالی وڈ کو بہتر انداز میں نہیں جانتے، آپ کی اس بات کا اعتبار نہیں کریں گے ۔

تاریخی حوالے سے گانے اور ہندی سینما کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ 1931 میں نمائش کیلئے پیش ہونے والی فلم ' عالم آرا' نہ صرف پہلی ٹاکی فلم تھی بلکہ یہیں سے فلموں میں گانوں کا رواج بھی شروع ہوا۔ اس فلم میں سات گانے تھے اور شاید یہیں سے شروع ہونے والی راویت مختلف شکلوں میں آج بھی رائج ہے۔

ابتدائی عرصے میں فنکاروں کا خود گلوکار ہونا انہیں حقیقی اسٹار بناتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ خوبصورت آواز اور جاذب نظر کندن لال سہگل  ہندی سینیما کے پہلے سپر اسٹار تھے۔

سہگل کی طرح اداکارہ ثریا کو بھی اپنے گانے خود گانے کی وجہ سے ہم عصرکامنی کوشل اور نرگس پر ترجیع حاصل رہی۔ اسی صلاحیت کی وجہ سے بیشک انہیں دوسروں پر فوقیت دی جاتی تھی لیکن ثریا اور سہگل اتنے بڑے فنکار تھے کہ اگر وہ گائیکی یا فنکاری میں سے کسی ایک شعبہ کا انتخاب بھی کرتے تو بھی بلندیاں چھو لیتے ۔

انیس سو سینتالیس میں سہگل کی موت اور پچاس کی دہائی میں ثریا کی اوپر تلے ناکام فلموں کی وجہ سے اس سنہرے دور کا بھی خاتمہ ہو گیا جس میں ادکار خود اپنے گیت گانے کی صلاحیت سے مالا مال ہوا کرتا تھا۔

برصضیر کی تقسیم کے بعد ہندی فلمی دنیا کی پہلی گلوکار نسل سہگل اور ثریا جیسی نہ تھی۔ ان کی پہچان کسی مخصوص اداکار کیلئے ان کی آواز تھی، جیسا کہ رفیع کو دلیپ کمار اور دیو آنند پر فلمائے گئے گانوں اور مکیش کو راج کپور کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی۔

بھاری آواز اور پرکش شخصیت کے حامل طلعت محمود نے اداکاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھانے کے باجود خود کوصرف گائیکی تک محدود رکھنا پسند کیا ، حالانکہ وہ دوسرے سہگل ثابت ہو سکتے تھے۔

محمود کے علاوہ اگر کوئی دوسرا گلوکار سہگل کے پائے کا اسٹار بننے کی صلاحیت رکھتا تھا تو وہ کشور کمار تھے۔

کشور بطور فنکار اور گلوکار خود کو اپنے یا پھر دیو آنند کیلئے گیت گانے تک محدود رکھ سکتے تھے لیکن فلموں میں ملنے والے مخصوص کرداروں کی وجہ سے ان کا اداکاری کا  کیرئیر محدود رہا اور وہ گلوکاری سے بھی انصاف نہیں کر سکتے تھے۔

اگر ماضی میں ثریا اور سہگل کی اداکاری نے ان کی گائیکی میں نکھار پیدا کیا تو اب صورتحال بالکل متضاد تھی۔  رفیع اور کشور کی مدھر گیتوں نے کمزور اداکاری کے باجود دیو آنند کو راج کپور اور دلیپ کمار سے کہیں زیادہ مقبول بنا دیا تھا۔

ایسا نہیں تھا کہ راج کپور اور دلیپ کمار کو صدا بہار گانے نہیں ملے، لیکن لگتا تھا کہ ان کی فلموں میں گانے اتفاقیہ طور پر موجود ہوتے تھے۔ آپ دلیپ کمار سے گانوں کے بغیر فلم کی توقع کر سکتے ہیں، اسی طرح راج کپور فلم سے زیادہ اس کے میڈیم کو اہمیت دیتے تھے۔ لیکن دیو آنند کا نام آتے ہی آپ کا ذہن ان سے جڑے مسحور کن گیتوں کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے۔

بالی وڈ کے نامور ستاروں کی زندگیوں میں ان پر فلمائے گئے گیتوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔

انیس سو ستاون میں شمی کپور کی زندگی میں کامیاب  موڑ لانےوالی میوزیکل فلم 'تم سا نہیں دیکھا' سے قبل ان کی انیس فلموں کو کوئی بھی یاد نہیں کرتا۔ حتٰی کہ 'تم سا نہیں دیکھا' کے بعد بھی، ان کی آنے والی فلمیں موسیقی کی وجہ سے ہی یاد رکھی گئیں۔

دیو آنند کی طرح شمی کپور کو بھی فلم کے لئے ترتیب دی جانے والی موسیقی کے سیشنز میں مدعو کیا جا تا تھا اور دونوں اداکار اچھی دھن پہچاننے میں کمال مہارت رکھتے تھے۔

لیکن اگر بالی وڈ میں کوئی ایک اداکار ہے جو اپنے اوپر فلمائے گئے گیتوں کہ وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا تو وہ راجیش کھنہ ہیں۔ سکرین پر جاذبِ نظر آنے والے دیو آنند کی طرح، راجیش کھنہ کی کامیابی میں کشور کمار کا نمایاں ہاتھ  تھا۔ جنہوں نے 1969 میں ان کی کامیاب فلم 'آرھادنا' سے ان کیلئے گانے گانے شروع کیئے ۔

اتفاق یہ ہے کہ کشور کمار نے 'آرھادنا' سے قبل صرف اپنے یا پھر دیو آنند کیلئے گانے گائے تھے۔1969 سے 1975 کے درمیانی عرصے میں راجیش کھنہ نے پینتیس گولڈن جوبلی فلمیں دیں جن میں دو راستے، خاموشی، سچا جھوٹا، سفر، کٹی پتنگ، آنند، ہاتھی میرے ساتھی، دشمن، امر پریم، اپنا دیش، میرے جیون ساتھی اور آپ کی قسم میں ان کی دوسری فلموں کی طرح سپر ہٹ گانے شامل تھے۔

دوسرے بالی وڈ اداکاروں کی نسبت راجیش کھنہ کے گانوں کی مقبولیت کی ایک وجہ آر- ڈی - برہمن بھی ہیں۔اس دور میں نوجوان نسل آر ڈی برہمن کے کام سے متاثر ہوتے رہے اور پھر رفتہ رفتہ وہ برہمن-کشور-کھنہ جوڑی کے گیتوں کو گننانے لگے۔

ہندوستان کی ابٓادی کا زیادہ حصہ چالیس سال کی عمر سے کم ہونے کی وجہ سے بالی وڈ کے دلدادہ شائقین کسی بھی اداکار – گلوکار جوڑی کی نسبت کشور – کھنہ سے انتہائی زیادہ متاثر تھے۔

ان کی نظر میں دیو آنند کی عمر ڈھلتی جا رہی تھی جبکہ امیتابھ بچن اور رشی کپور ، راجیش کھنہ کے مقابلے میں 'نئے' تھے ۔

گانے ہمیشہ سے ہی بالی وڈ کے سپر اسٹاز کے بہترین ساتھی رہے ہیں اور شاید گرم سرد موسم میں وہی ان کے دیرپا دوست تھے۔

دیو آنند اپنی تمام تر شان کے باوجود ایک تنہائی پسند شخص تھے۔اتفاق سے اسی طرح راجیش کھنہ کی زندگی لوگوں میں رہتے ہوئے بھی اکیلے پن میں قید نظر آتی تھی۔ لیکن دونوں کے پاس گیت تھے اور جیسا کہ جان لینن نے کہا ہے کہ 'دوستوں کی ذرا سی مدد سے زندگی گزارنا آسان رہتا ہے'۔

پول

[polldaddy poll=6398927]


@gchintamaniگوتم چنتمانی ایوارڈ یافتہ ڈاکیومنٹری فلم ساز اور مصنف ہیں۔

گوتم چنتمانی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 1 جون 2024
کارٹون : 31 مئی 2024