پاکستان کرکٹ کا 'رولر کوسٹر' سال

01 جنوری 2016
پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ 2015میں  ہندوستان کے خلاف میچ کے لیے میدان میں اتر رہی ہے۔ — اے ایف پی
پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ 2015میں ہندوستان کے خلاف میچ کے لیے میدان میں اتر رہی ہے۔ — اے ایف پی

پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے قیام سے لے کر آج تک 'نازک موڑ' پر ہی کھڑا ہے اور یہی بات قومی کرکٹ پر بھی صادق آتی ہے۔ جیسے جیسے ملک میں کرکٹ کی مقبولیت بڑھتی گئی اس کی ہنگامہ خیزی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔

پھر دنیا نے نئے ہزاریے میں قدم رکھا تو پاکستان کرکٹ نے اس کا استقبال جسٹس قیوم کمیشن کے تحت میچ فکسنگ کی تحقیقات سے کیا، اور نئی صدی کے پندرہویں سال کا اختتام فکسنگ ہی میں ملوث ایک کھلاڑی کو 'قومی دھارے' میں واپس لانے کی کوششوں سے ہوا ہے۔ خیر، کرکٹ ایک کھیل ہے اور کوئی کھیل بھی ایسی ہنگامہ خیزی سے آزاد نہیں۔ پھر کرکٹ جیسا کھیل ایک جذباتی قوم کے ہاتھ لگ جائے تو مزا 'دو آتشہ' ہو جاتا ہے۔

سال 2015 بھی کسی لحاظ سے گزرے سالوں سے مختلف نہیں تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں شکست کی وجہ سے دل کو بہت گہرا زخم لگا۔ لیکن اس کے بعد پاکستان نے سری لنکا اور انگلینڈ کے خلاف تاریخی کامیابیاں بھی سمیٹیں۔ یوں مجموعی طور پر یہ بھی ایک ملا جلا سال تھا۔ ٹیسٹ میں فتوحات اور محدود اوورز کی کرکٹ میں شکستوں سے عبارت ایک اور سال۔

پاکستان نے 2015 کا آغاز نیوزی لینڈ کے دورے سے کیا۔ یہ ایک مختصر مہم تھی، جس کا مقصد ورلڈ کپ سے پہلے کچھ لہو گرمانا تھا۔ لیکن دو کراری شکستوں کے بعد سارے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے۔ پاکستان ایسا بے حال ہوا کہ ورلڈ کپ کی مہم شروع ہوتے ہی نہ صرف ہندوستان بلکہ ویسٹ انڈیز تک سے ہار گیا۔ زمبابوے اور متحدہ عرب امارات کے خلاف اگلے میچوں میں کامیابیاں حاصل کرکے اوسان بحال کیے تو جنوبی افریقہ کے خلاف ورلڈ کپ کا سب سے مشکل مقابلہ سامنے کھڑا تھا۔

بعد میں یہی مقابلہ ٹورنامنٹ کے دلچسپ ترین میچز میں شمار ہوا۔ پاکستان جنوبی افریقہ کو صرف 232 رنز کا ہدف دے سکا اور شاندار باؤلنگ کر کے اس کے 6 کھلاڑی 102 رنز پر ہی آؤٹ کردیے۔ لیکن ابھی اے بی ڈی ولیئرز موجود تھے، دنیائے کرکٹ کے خطرناک ترین بیٹسمین، جو اننگز انہوں نے کھیلی پاکستان کے دانتوں پر پسینہ آ گیا ہوگا۔ جب ہدف صرف 32 رنز کے فاصلے پر تھا تو سہیل خان کے ایک باؤنسر نے ان کی اننگز کا کام تمام کردیا اور پاکستان نے کچھ ہی دیر بعد میچ 29 رنز سے جیت لیا۔ اس میچ کی جھلکیاں اب بھی جذباتی کر دیتی ہیں کہ کس طرح پاکستان نے ڈی ولیئرز کے بڑھتے ہوئے طوفان کا منہ موڑا۔

بہرحال، بعد میں آئرلینڈ کو شکست دے کر پاکستان کوارٹر فائنل تک تو پہنچ گیا لیکن وہاں مقابلہ آسٹریلیا سے پڑ گیا۔ میزبان اور عالمی نمبر ایک، جو بعد میں ورلڈ چیمپئن بھی بنا۔ آسٹریلیا کے لیے پاکستان کو شکست دینا اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا اور اس نے مقابلہ باآسانی جیتا بھی۔

البتہ اس میچ میں وہاب ریاض کی جانب سے پھینکے گئے ایک باؤلنگ اسپیل نے عالمگیر شہرت ضرور سمیٹی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا "شین واٹسن اب گئے کہ تب گئے،" بہرحال، کسی نہ کسی طرح جسم پر کئی گیندیں کھانے، اپنا منہ گیند کی زد سے بچانے اور کیچ چھوٹنے کی صورت میں نئی زندگی ملنے کے بعد بالآخر وہ بچ ہی گئے اور آسٹریلیا نے پاکستان کو عالمی کپ کی دوڑ سے باہر کردیا۔

اس میچ میں وہاب ریاض نے شین واٹسن کے خلاف تاریخی اسپیل کروایا۔ — اے پی۔
اس میچ میں وہاب ریاض نے شین واٹسن کے خلاف تاریخی اسپیل کروایا۔ — اے پی۔

نم ناک آنکھوں کے ساتھ شاہد آفریدی اور مصباح الحق نے ون ڈے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا اور یوں ان تمام تر خوش فہمیوں کا بھی خاتمہ ہو گیا جو پاکستان کے ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچنے کے بعد پیدا ہو گئی تھیں۔ آپ کو تو یاد ہوگا کہ کس طرح 1992 اور 2015 کے عالمی کپ کا تقابل کیا جا رہا تھا کہ "1992 میں بھی یہی ہوا تھا"۔ بہرحال، 1992 میں پاکستان آسٹریلیا کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچا تھا، اس مرتبہ ایسا نہ ہو سکا۔

ورلڈ کپ میں شکست کا غم بہت گہرا ضرور تھا لیکن 'رات گئی، بات گئی' کے مصداق پاکستان اگلے ہی مہینے نئے عزم، نئے حوصلے اور نئے کپتان کے ساتھ بنگلہ دیش کے دورے پر پہنچا۔ مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک روزہ ٹیم کی قیادت حیران کن طور پر اظہر علی کو سونپی گئی۔ ایک کھلاڑی جو سالوں سے ون ڈے ٹیم سے ہی باہر تھا اسے کپتان کی حیثیت سے بلا کر پاکستان کرکٹ بورڈ نے وہ 'عظیم' روایت زندہ رکھی جو ہمیشہ سلیکشن کمیٹی کے ہاتھوں باہر بٹھائے جانے والے کھلاڑی کو کپتان بنا کر پکّا کرتی ہے۔

ماضی میں اس کی کئی مثالیں ہیں لیکن فی الحال ماضی کھنگالنا ہمارا موضوع نہیں اس لیے سیدھا بنگلہ دیش کے دورے پر آتے ہیں۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ بنگلہ دیش کا 'لوہے کا چنا' ثابت ہوگا۔ پہلی شکست، حیرت ہوئی لیکن نئے کپتان اور نئی ٹیم سمجھ کر معاف کردی گئی لیکن دوسرے مقابلے میں بھی شکست؟ یعنی سیریز ہاتھ سے گئی اور یہی نہیں بلکہ تیسرے میں بھی ہار نے پیچھا نہ چھوڑا یعنی وہ پاکستان جو 1999 سے لے کر تب تک بنگلہ دیش کے ہاتھوں کبھی ایک میچ، نہ ٹیسٹ، نہ ون ڈے اور نہ ٹی ٹوئنٹی، تک نہیں ہارا تھا، ایک ساتھ تین میچز میں شکست کھا کر کلین سویپ کی ہزیمت سے دوچار ہوا۔

بنگلہ دیش کے بلے باز مشفق الرحیم اور سومیہ سرکار پاکستان سے میچ جیت کر خوشی منا رہے ہیں۔— فوٹو اے پی
بنگلہ دیش کے بلے باز مشفق الرحیم اور سومیہ سرکار پاکستان سے میچ جیت کر خوشی منا رہے ہیں۔— فوٹو اے پی

یہی نہیں بلکہ دونوں ٹی ٹوئنٹی مقابلے بھی بنگلہ دیش کے نام رہے۔ یوں محض چند دنوں میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو فرش سے عرش تک پہنچا دیا۔ ویسے بعد میں اندازہ ہوا کہ غلطی اظہر علی اور ان کے کھلاڑیوں کی نہیں تھی، بنگلہ دیش واقعی بڑی قوت بن چکا ہے کیونکہ اس نے بعد میں ہندوستان اور جنوبی افریقا کو بھی ون ڈے سیریز میں شکست دی۔

بہرحال، آخری اور اہم امتحان ٹیسٹ سیریز میں تھا جہاں پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہے۔ یہاں دوسرے اور آخری ٹیسٹ میں پاکستان نے 328 رنز سے کامیابی حاصل کر کے سیریز ایک-صفر سے جیت لی اور پے در پے شکستوں کے بعد دم بھر کو سانس ہی لیا تھا کہ وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا جس کا انتظار پاکستانی شائقین کو 6 سالوں سے تھا۔

زمبابوے نے دورۂ پاکستان پر رضامندی ظاہر کی اور تین ون ڈے اور تین ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے کے لیے مئی کے آخری دنوں میں لاہور پہنچا۔ یہ ایک شاندار سیریز تھی، جس میں کسی کو نتیجے سے تو شاید دلچسپی نہ ہو لیکن اس ماحول سے ضرور تھی جو قذافی اسٹیڈیم میں دیکھنے کو ملا۔ ہزاروں تماشائیوں نے جب پہلے مقابلے سے قبل یک آواز ہو کر قومی ترانہ پڑھا تو جوش و خروش اپنے عروج پر پہنچ گیا۔

سیریز میں زمبابوے نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی لیکن میچ کوئی نہ جیت سکا۔ پاکستان نے پہلے دونوں ٹی ٹوئنٹی مقابلے جیتے اور اس کے بعد ون ڈے کے پہلے دونوں میچز جیت کر یہ مرحلہ بھی اپنے نام کیا۔ تیسرا اور آخری ون ڈے بارش کی نذر ہو گیا لیکن جو مقصد تھا وہ حاصل ہو چکا تھا۔ دنیا کے سامنے یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ہو سکتی ہے۔

لیکن آدھا سال گزر چکا تھا اور پاکستان کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کرسکا تھا۔ زمبابوے کے خلاف فتوحات کے علاوہ تمام ہی مراحل کا اختتام ناکامی پر ہوا تھا۔ تب پاکستان کے کھلاڑیوں کو جون میں 'لنکا ڈھانے' کی مشکل ترین ذمہ داری دی گئی۔ ایک ایسی جگہ جہاں پاکستان پچھلے کئی سالوں سے ناکامیاں سمیٹتا آ رہا ہے اور شکست خوردہ دستے کے ساتھ یہ مہم مزید مشکل ہو سکتی تھی۔ بہرحال، گال میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں یاسر شاہ کی شاندار باؤلنگ کی بدولت پاکستان نے زبردست کامیابی حاصل کی اور اپنے حوصلے بلند کردیے۔

دوسرے ٹیسٹ میں اگر بیٹنگ دغا نہ دیتی تو حالات کافی مختلف ہوتے۔ پہلی اننگز میں صرف 138 رنز پر ڈھیر ہو جانے کے بعد پاکستان میچ میں واپس نہ آ سکا اور سری لنکا نے مقابلہ جیت کر سیریز برابر کردی۔ تیسرا اور فیصلہ کن مقابلہ پالی کیلے میں ہوا جہاں سال کا بہترین ٹیسٹ کھیلا گیا۔ پاکستان پہلی اننگز میں 63 رنز کے خسارے میں گیا اور اس پر طرّہ یہ کہ سری لنکا نے 313 رنز مزید جڑ دیے اور پاکستان کو 377 رنز کا ایسا ہدف دیا جسے حاصل کرنا کسی معجزے سے کم نہ ہوتا، خاص طور پر جب صرف 13 رنز پر دو کھلاڑی آؤٹ ہو چکے ہوں۔

یہ معجزہ رونما ہوا اور شان مسعود، یونس خان اور مصباح الحق نے یادگار اننگز کھیل کر پاکستان کو نہ صرف میچ بلکہ سیریز بھی جتوا دی۔ شان اور یونس نے 242 رنز کی شراکت داری قائم کی اور پاکستان کو مقابلے میں واپس لائے۔ اس میں 125 رنز نوجوان شان مسعود کے تھے۔ یونس خان نے 171 رنز کی فاتحانہ اننگز کھیلی اور مصباح کے ساتھ 127 رنز کا اضافہ کرکے ہدف کو ممکن بنایا۔ پاکستان نے صرف تین وکٹوں کے نقصان پر 377 رنز بنائے، جو ہدف کے کامیاب تعاقب کا ایک ریکارڈ ہے۔

اس کامیابی سے اتنا حوصلہ ملا کہ پاکستان نے اظہر علی کی قیادت میں ون ڈے سیریز بھی جیت لی۔ پانچ مقابلوں کی سیریز کے ابتدائی چار میچز میں ہی پاکستان سیریز جیت چکا تھا اس لیے آخری میچ میں شکست سے بھی سیریز کے نتیجے پر کوئی فرق نہ پڑا۔ یہ طویل عرصے بعد کوئی پہلا موقع تھا کہ پاکستان نے کسی ملک کے دورے میں تمام طرز کی کرکٹ میں کامیابی حاصل کی ہو۔

سری لنکا کے خلاف پہلے ون ڈے میں رضوان شیر کی طرح گیند پر جھپٹتے ہوئے۔ — اے ایف پی۔
سری لنکا کے خلاف پہلے ون ڈے میں رضوان شیر کی طرح گیند پر جھپٹتے ہوئے۔ — اے ایف پی۔

زمبابوے کا 'دورہ برائے شکریہ' کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کے بعد، پاکستان کو اکتوبر و نومبر میں سب سے مشکل اور سب سے بڑے مقابلوں میں انگلینڈ کا سامنا تھا۔ تین سال بعد متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر ایک اور پاک-انگلستان ٹکراؤ کہ جس میں تین ٹیسٹ، چار ایک روزہ اور تین ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلے گئے۔ ٹیسٹ میں ہمیں ایک اور شاندار سیریز دیکھنے کو ملی۔

ابوظہبی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں پاکستان کے شعیب ملک نے طویل عرصے بعد اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا اور ڈبل سنچری کی صورت میں اپنی زندگی کی یادگار ترین اننگز بھی۔ لیکن انگلینڈ پوری طرح تیار تھا۔ ایلسٹر کک نے جوابی ڈبل سنچری داغی اور انگلینڈ نے 598 رنز بنا کر پاکستان پر 75 رنز کی برتری تک حاصل کرلی۔

ایسی صورتحال میں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ پاکستانی بلے بازوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں اور ہوا بھی ایسا ہی، دوسری اننگز میں پوری ٹیم صرف 173 رنز پر ڈھیر ہوگئی اور انگلینڈ کو جیتنے کے لیے صرف 99 رنز کا ہدف ملا۔ وہ تو پاکستان کو شکر گزار ہونا چاہیے کہ امپائروں نے بروقت مداخلت کرکے کم روشنی کی وجہ سے میچ کے خاتمے کا اعلان کردیا ورنہ انگلینڈ تو 11 اوورز میں ہی 74 رنز بنا چکا تھا اور ابھی دن کے 8 مزید اوورز بھی باقی تھے۔ یوں پاکستان ابوظہبی میں ایک یقینی شکست سے بال بال بچا اور سیریز بہت ہی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی۔

دبئی میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان نے یہ غلطیاں نہ دہرائیں اور پہلی اننگز میں 136 رنز کی برتری حاصل کرنے کے بعد مزید 354 رنز بنا ڈالے۔ انگلینڈ کو کچلنے کے لیے 491 رنز کا ہدف بہت تھا، خاص طور پر جب ابتدائی وکٹیں جلد گرگئیں تو پاکستان کی فتح یقینی تھی۔ یہاں عادل رشید نے تاریخی مزاحمت کی۔ 172 گیندیں انہوں نے کھیلیں، 150 آخری تین بیٹسمینوں نے یوں تقریباً 54 اوورز کا کھیل ضائع کرکے انہوں نے انگلینڈ کو بچا ہی لیا تھا کہ پاکستان نے عادل رشید کو عین اس وقت پر آؤٹ کردیا جب صرف پانچ اوورز کا کھیل باقی تھا۔ یوں پاکستان میچ تو جیت گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ لگ پتہ گیا!

آخری ٹیسٹ شارجہ میں ہوا جہاں پہلی اننگز میں 72 رنز کی برتری ملنے کے باوجود انگلینڈ محمد حفیظ کے سامنے ہتھیار ڈال گیا۔ انہوں نے 151 رنز بنائے اور پاکستان انگلینڈ کو 284 رنز کا ہدف دینے میں کامیاب ہوا۔ یہاں وہ 156 رنز ہی بنا سکا اور یوں تیسرے میچ میں جاکر انگلینڈ نے باآسانی ہتھیار ڈالے اور سیریز طشتری میں رکھ کر پاکستان کو پیش کردی۔ ایسا لگتا تھا کہ 2012 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے، اور واقعی بعد میں ہوا بھی ایسا ہی۔

جس طرح تین سال پہلے پاکستان ٹیسٹ میں شاندار فتوحات کے بعد ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی مرحلے میں بری طرح شکست سے دوچار ہوا تھا، سال 2015 میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ون ڈے سیریز کے چار مقابلوں میں سے صرف ایک جیت پایا اور ٹی ٹوئنٹی میں تو وہ ایک جیتنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی یعنی تینوں میں شکست ہوئی۔ آخری ٹی ٹوئنٹی میں معاملہ سپر اوور تک چلا گیا لیکن سوائے سنسنی خیزی اور ہیجان کے کچھ ہاتھ نہ لگا اور سپر اوور میں انگلینڈ جیت کر ٹرافی لے اڑا۔

— رائٹرز۔
— رائٹرز۔

یوں اگر کارکردگی کا جائزہ لیں تو سال بھر میں پاکستان نے 8 میں سے صرف ایک ٹیسٹ میں شکست کھائی اور پانچ جیتے یعنی طویل طرز کی کرکٹ میں کوئی ٹیم پاکستان کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتی۔ کامیابی کا یہ تناسب تو آسٹریلیا، انگلینڈ، ساؤتھ افریقہ اور ہندوستان کا بھی نہیں ہے۔ لیکن جیسے ہی فارمیٹ تبدیل ہوا، ایسا لگا ٹیم ہی تبدیل ہوگئی۔ ون ڈے میں بدترین کارکردگی دکھائی اور 27 میں سے صرف 12 میچز جیتے اور 14 میں شکست کھائی۔ ایسی کارکردگی جو صرف آئرلینڈ کے برابر ہی آ سکتی ہے۔

ون ڈے میں ایسی کارکردگی کوئی نئی بات نہیں پاکستان پچھلے کئی سالوں سے محدود طرز کی کرکٹ میں یہیں "کارنامے" دکھا رہا ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑنے لگا ہے، ون ڈے کو دیکھ کر ٹی ٹوئنٹی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگی ہے۔ پاکستان نے سال کا آغاز دنیا کی دوسری بہترین ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے ساتھ کیا تھا اور سال کے اختتام پر وہ چھٹے نمبر پر کھڑا ہے۔

اجمالی جائزے کے بعد دیکھتے ہیں سال بھر میں مختلف طرز کی کرکٹ میں پاکستان کے کون سے بیٹسمین نمایاں رہے۔

اہم بیٹسمین

ٹیسٹ میں پاکستان کے نمایاں ترین بیٹسمین یونس خان رہے جنہوں نے سال 2015 میں ریکارڈز کے انبار لگا دیے۔ سب سے زیادہ سنچریوں کا قومی ریکارڈ برابر کرنے کے بعد انہوں نے جاوید میانداد کا دہائیوں پرانا سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔ وہ 9 ہزار ٹیسٹ رنز بنانے والے پاکستان کے پہلے بیٹسمین بنے۔ سال بھر میں انہوں نے 8 ٹیسٹ کھیلے اور 60.69 کے عمدہ اوسط کے ساتھ 789 رنز بنائے۔ جس میں تین سنچریاں اور ایک نصف سنچری بھی شامل رہی۔

دیگر بلے بازوں میں محمد حفیظ اور اسد شفیق تھے جنہوں نے 700 سے زیادہ رنز اسکور کیے۔ ون ڈے میں محمد حفیظ سب سے نمایاں بیٹسمین کے طور پر دکھائی دیے۔ انہوں نے 20 میچز میں 41.15 کے اوسط سے 782 رنز اسکور کیے جن میں دو سنچریاں اور پانچ نصف سنچریاں شامل تھیں۔ یوں حفیظ دونوں طرز کی کرکٹ میں پاکستان کے نمایاں ترین بیٹسمین رہے شاید باؤلنگ پر پابندی کے بعد انہیں بیٹنگ پر توجہ کا موقع زیادہ ملا ہے۔

قیادت ملنے کے بعد اظہر علی ون ڈے ٹیم میں واپس آئے تو انہیں خود کو ثابت بھی کرنا تھا اور واقعی کیا تھا۔ 17 میچز میں 775 رنز بنا کر انہوں نے خود کو ون ڈے کرکٹ کا اہل ثابت کیا۔ ٹی ٹوئنٹی میں شعیب ملک سب سے نمایاں بیٹسمین رہے جنہوں نے 8 میچز میں 219 رنز بنائے۔

اہم باؤلرز

بلاشبہ یاسر شاہ! انہوں نے سال بھر پاکستان کی ٹیسٹ فتوحات میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صرف 7 ٹیسٹ کھیلے، اور 23 کے شاندار اوسط کے ساتھ 49 وکٹیں حاصل کیں۔ اس دوران انہوں نے سب سے کم ٹیسٹ میچز میں 50 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنے کا قومی ریکارڈ بھی توڑا۔

وہ دیگر پاکستانی باؤلرز سے کتنے آگے رہے، اسی سے اندازہ لگائیں کہ وہاب ریاض دوسرے نمبر پر رہے، اتنے ہی میچز میں صرف 20 وکٹوں کے ساتھ۔ البتہ ون ڈے میں وہاب سب سے نمایاں دکھائی دیے۔ انہوں نے 20 ون ڈے میچز کھیلے اور 32 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ جبکہ محمد عرفان 24 وکٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں سہیل تنویر 8 میچز میں 11 وکٹوں کے ساتھ پاکستان کے نمایاں ترین باؤلر بنے۔

تنازعات

پاکستان کرکٹ اور تنازعات کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ رواں سال بڑے تنازعات دو رہے، ایک اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کی پابندی کے خاتمے کے بعد انہیں 'قومی دھارے' میں واپس لانے کی کوششیں، جن میں محمد عامر کو قومی ٹیم تک پہنچانا سب سے نمایاں رہا اور دوسرا اہم ترین باؤلر یاسر شاہ کی ڈوپ ٹیسٹ میں ناکامی۔ محمد عامر نے 2010 کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد پانچ سال پابندی بھی بھگتی اور برطانیہ میں قید کی سزا بھی کاٹی، لیکن ایک بات ہے کہ کم عمری کی وجہ سے انہیں دنیا بھر میں ہمدردی ضرور حاصل رہی۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل تک نے انہیں پابندی کا عرصہ مکمل ہونے سے پہلے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی تاکہ انہیں بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے لیے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ جب یہ مرحلہ قریب آ پہنچا تو پاکستان میں ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ محمد عامر کو ٹیم میں شامل کیا جائے یا نہیں؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود ٹیم واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ سب سے پہلے محمد حفیظ نے اعلانیہ کہا کہ وہ ایسی ٹیم سے نہیں کھیلنا چاہتے جس میں محمد عامر کھیلیں، بلکہ وہ کسی بھی ایسے کھلاڑی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے جس نے ملک کو بدنام کیا ہو۔

محمد عامر اور شاہد آفریدی لاہور میں پریکٹس کے دوران۔ 29 دسمبر 2015۔ — اے ایف پی
محمد عامر اور شاہد آفریدی لاہور میں پریکٹس کے دوران۔ 29 دسمبر 2015۔ — اے ایف پی

یہ بہت سخت بیان تھا اور جب دونوں کھلاڑی آمنے سامنے آئے تو سب کے ذہن میں یہی بات گھوم رہی تھی۔ بہرحال، اب نیوزی لینڈ کے دورے سے قبل تربیتی کیمپ میں نہ صرف محمد حفیظ بلکہ ون ڈے کپتان اظہر علی نے بھی یہ کہہ کر شرکت سے انکار کر دیا کہ وہ محمد عامر کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہتے۔ اظہر نے تو قیادت سے ہی استعفیٰ دے دیا۔ اب کہا تو یہی جا رہا ہے کہ بورڈ نے سمجھا بجھا کر معاملہ ٹھنڈا کردیا ہے لیکن لگتا نہیں کہ ایسا ہو پائے گا۔

دوسرا معاملہ یاسر شاہ کا، ایک ایسا باؤلر جس نے سال بھر پاکستان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا، سال کے بالکل اختتامی ایام میں نئے ہنگامے کی نذر ہوگیا۔ آئی سی سی نے اعلان کیا کہ انگلینڈ کے خلاف سیریز کے دوران کیا جانے والا یاسر شاہ کا ڈوپ ٹیسٹ ناکام ہو گیا ہے جس میں ان کے دیے گئے نمونے میں ممنوعہ اجزا کی آمیزش پائی گئی ہے۔

اب اگر یاسر شاہ خود کو بے گناہ ثابت نہ کر سکے تو انہیں دو سے چار سال تک کی پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہوگا۔ پاکستان کو اگلے سال انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف اہم اور بڑی سیریز کھیلنی ہیں جہاں یاسر شاہ کا کردار بہت اہم ہوتا لیکن ڈوپ ٹیسٹ میں ناکامی کی وجہ سے ان کا اپنا کیریئر بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔

سال کی سب سے بڑی خوشی

سال کی سب سے بڑی خوشی بلاشبہ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کامیابی تھی۔ دو انتہائی سنسنی خیز ٹیسٹ میچز کے بعد سیریز ایک-صفر سے پاکستان کے حق میں آئی اور پھر شارجہ کے تاریخی میدان پر پاکستان نے تیسرا و آخری ٹیسٹ جیت کر ایک مرتبہ پھر 'بابائے کرکٹ' کو سیریز شکست سے دوچار کیا۔ بس پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں شکست سے مزا کرکرا کیا، لیکن اس فتح کے ساتھ ٹیسٹ کی عالمی رینکنگز میں پاکستان کو دوسرے نمبر تک پہنچتے دیکھنا بہت یادگار لمحہ تھا۔

سال کا سب سے بڑا غم

بلاشبہ ورلڈ کپ میں شکست۔ آسٹریلیا کے ہاتھوں کامیابی کے امکانات تھے تو بہت کم لیکن جتنی جان پاکستانی کھلاڑیوں نے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں لڑائی، اس کے بعد ہار جانا ایک دل شکستہ منظر تھا۔ سال کا خوبصورت ترین باؤلنگ اسپیل کروانے والے وہاب ریاض کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر دل بھر آیا۔ بہرحال، زخم کیسے بھی ہوں، کچھ روز میں بھر جاتے ہیں۔

سال 2015 کا ایک اور افسوسناک منظر سعید اجمل کو بے دست و پا دیکھنا تھا۔ گزشتہ سال ناقص باؤلنگ ایکشن کی وجہ سے پابندی کی زد میں آنے والے سعید دن رات محنت کرکے اپنے باؤلنگ ایکشن کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے اور انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آئے لیکن بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کے پہلے ون ڈے میں ہم نے انہیں 10 اوورز میں بغیر کوئی وکٹ لیے 74 رنز کھاتے ہوئے دیکھا اور دوسرے میچ میں بھی صرف ایک ہی وکٹ ان کے ہاتھ لگی۔

واحد ٹی ٹوئنٹی جو انہوں نے کھیلا وہ بھی بنگلہ دیش کے خلاف ہی تھا کہ جہاں انہوں نے 25 رنز کھائے اور پاکستان کو شکست ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی گویا سعید اجمل کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ گزشتہ چار سال سے پاکستان کی فتوحات کے علمبردار باؤلر کو اس طرح دیکھنا ایک دلخراش منظر تھا۔

اُمیدِ سالِ نو

اب 2016 کا آغاز ہو چکا ہے، پاکستان کو پہلے سے کہیں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسے آغاز ہی نیوزی لینڈ کے خلاف محدود اوورز کے مقابلوں کی سیریز سے کرنا ہے۔ وہ نیوزی لینڈ جو سال بھر میں ہوم گراؤنڈ پر صرف ایک ون ڈے میچ ہارا ہے، وہ بھی سال کے آخری مقابلے میں۔ اسے ہرانا پاکستان کے لیے ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوگا۔

اس کے بعد پاکستان کو سال کا اہم ترین مرحلہ درپیش ہوگا، فروری میں پاکستان سپر لیگ۔ پاکستان کرکٹ کے مستقبل کا انحصار اسی لیگ پر ہے جس کے معاملات اب تک تو بخیر و خوبی چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر متحدہ عرب امارات میں ایک کامیاب لیگ کا انعقاد ہو گیا تو پاکستان کرکٹ بہت آگے جائے گی اور یہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کی جانب اہم قدم بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی بہرحال پہلی کوشش یہی ہوگی کہ دوسرا سیزن وطن عزیز ہی میں کھیلا جائے۔

اسلام آباد کے کوچ ڈین جونز سابق عظیم گیند باز وسیم اکرم کے ہمراہ پی ایس ایل کی نیلامی کے عمل میں شرکت کررہے ہیں۔ —اے ایف پی۔
اسلام آباد کے کوچ ڈین جونز سابق عظیم گیند باز وسیم اکرم کے ہمراہ پی ایس ایل کی نیلامی کے عمل میں شرکت کررہے ہیں۔ —اے ایف پی۔

بہرحال، پی ایس ایل کے بعد پاکستان سال کا سب سے اہم ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کھیلے گا اور پھر انگلینڈ کا دورہ بھی کرے گا جو اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد پاکستان کا پہلا دورۂ انگلستان ہوگا۔ پاکستان کو اگلے سال نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دورے بھی کرنے ہیں یعنی یہ ایک چیلنجز سے بھرا سال ہوگا۔

ہمیں بالکل بھی شک نہیں کہ 31 دسمبر 2016 کو جب ہم ایک مرتبہ پھر پاکستان کرکٹ کا جائزہ لے رہے ہوں گے تو وہ اس سے بالکل مختلف نہ ہوگا۔ پھر بھی کبھی کبھار خدشات پورے نہیں ہوتے، وہ امکانات بن جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ 2016 کا سورج پاکستان کرکٹ کی عظمت کے ساتھ طلوع ہو لیکن اس کے لیے دعا کے ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں