کراچی والے چنگچی پر گزارا کریں

11 جنوری 2016
کراچی کی 2 کروڑ سے زائد آبادی کی سفری سہولیات کے لیے ٹرانسپورٹ کی موجودہ تعداد ناکافی ہے۔ — رائٹرز۔
کراچی کی 2 کروڑ سے زائد آبادی کی سفری سہولیات کے لیے ٹرانسپورٹ کی موجودہ تعداد ناکافی ہے۔ — رائٹرز۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، شہرِ قائد جس کی روشنیاں بے مثال ہیں اور رونقیں کمال ہیں۔ پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ آبادی کا بڑا حصہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور آمد و رفت کا مقبول ترین اور عوامی ذریعہ پبلک ٹرانسپورٹ ہے۔ مسافروں کی بڑی تعداد سفر کے لیے انہی بسوں، مزدا اور کوچز کو ترجیح دیتی ہے۔ اور ان مسافروں میں بڑی تعداد طلبہ و طالبات کی بھی ہے جو مختلف اوقات میں حصول علم کے لیے درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔

رنگ برنگی، سجی سجائی ان بسوں، کوچز اور مزدا میں سفر کرنے والے بخوبی ان کی حالتِ زار سے آگاہ ہوتے ہیں۔ گنجائش سے زائد سواریاں، کھچا کھچ رش اور جگہ جگہ جھٹکے سے رکتی یہ بسیں عوامی بد حالی اور متعلقہ اداروں کی نا اہلی کا چلتا پھرتا بلکہ دوڑتا ہوا ثبوت ہیں۔

صبح صبح اگر آپ بذریعہ اپنی منزل تک پہنچنا چاہیں گے تو سفر کے دوران آپ کا معقول اور نک سک سے درست حلیہ بڑی حد تک تبدیل ہو جاتا ہے۔ اگر دورانِ سفر آپ کا واسطہ کسی با ذوق ڈرائیور سے پڑ جائے تو یہ اضافی خوبی ہے اور آپ راستے بھر شاندار موسیقی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ اگر آپ بس میں نشست نہ ملنے کے باعث کھڑے ہو کر سفر کر رہے ہیں تو سہارے اور توازن قائم رکھنے کے لیے کوئی ہینڈل نہ بھی ہو، تب بھی آپ گریں گے نہیں، کیونکہ بس اس قدر بھری ہوئی ہوگی کہ آپ ڈبے میں پیک کیے گئے سامان کی طرح اپنی جگہ جمے ہی رہیں گے.

اس کے علاوہ اگر بس میں گنجائش نہیں تو پریشان نہ ہوں، ایک راستہ بس کی چھت کی جانب بھی جاتا ہے جہاں کھلی فضا میں گرمی سے بلبلاتے ہوئے مسافر حضرات بھی کثرت سے نظر آتے ہیں، جو بلا شبہ جان جوکھوں میں ڈاال کر سفر کرتے ہیں۔

پڑھیے: کچھ نئی 'جنگلہ بس' کے بارے میں

مرد و خواتین سب ہی لوگ بسوں کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواتین کے لیے مختص کی گئی نشستیں انتہائی کم ہوتی ہیں۔ بیش تر اوقات انتہائی پر ہجوم اور مصروف شاہراہوں پر بھی ڈرائیور حضرات ریس لگانے اور اوور ٹیکنگ میں مصروف نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے خود کو ہر قانون سے بری سمجھتے ہیں۔

ایسی صورت میں جب مسافر کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں بلکہ چھتوں پر بھی سوار ہوتے ہیں، ڈرائیور حضرات موبائل فون کا آزادانہ استعمال کر کے نہ صرف حادثات کو دعوت دیتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ تمام مسافروں کی زندگی کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

کراچی کی 2 کروڑ سے زائد آبادی کی سفری سہولیات کے لیے ٹرانسپورٹ کی موجودہ تعداد ناکافی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان کو سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے محض 9 ہزار کے قریب بسیں ہیں جبکہ شہری انتظامیہ کے مطابق ٹرانسپورٹ کی کمی کو فوری طور پر پورا کرنے کے لیے 8 ہزار 600 اضافی اور بڑی بسیں درکار ہیں۔

قیامِ پاکستان کے وقت شہر میں ٹرام کا نظام بھی موجود تھا جسے بڑھتی آبادی کے باعث محدود کرتے کرتے ختم کر دیا گیا اور منی بسوں کے ذریعے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم جوں جوں کراچی کی آبادی بڑھتی گئی، ملک کے کونے کونے سے روزگار کی خاطر آنے والے افراد نے جہاں کراچی کی آبادی بڑھائی، تو آبادی کے تناسب سے میسر وسائل کا تناسب بگڑ گیا جس میں ٹرانسپورٹ کی کمی بھی شامل ہے۔

بد قسمتی سے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کبھی کوئی حقیقی اور سنجیدہ نوعیت کا منصوبہ نہیں شروع کیا گیا۔ ماضی میں یو ٹی ایس اور گرین بس کے نام سے بھی ٹرانسپورٹ اسکیم شروع کی گئیں لیکن باقاعدہ نظام اور سر پرستی نہ ہونے کے باعث ان منصوبوں پر بھی دھول پڑ گئی۔

کچھ عرصہ پہلے چنگچی رکشوں کو بھی سڑک پر لایا گیا جو اپنے کم کرایوں کی وجہ سے چھوٹے روٹس پر سفر کرنے والے عوام کے لیے بڑی سہولت تھے۔ اسی سفر کے جس کے رکشے والے 150 سے 200 روپے لیتے ہیں، چنگچی رکشوں میں وہی سفر 15 سے 20 روپے میں ہوجاتا تھا۔ لیکن ٹریفک کے اژدھام اور ہزاروں کی تعداد میں ڈولتے چنگچی رکشوں نے شہرِ قائد کی سڑکوں کا نقشہ بدل کر حادثات کا گراف اونچا کردیا جس کے باعث سندھ ہائیکورٹ نے ان پر پابندی عائد کردی تھی۔

پڑھیے: جہنم کی چنگچی

لیکن ابھی چند دن قبل سپریم کورٹ نے چنگچی رکشوں کو سڑکوں پر لانے کی مشروط اجازت دے کر غریب عوام کو خوش کردیا ہے لیکن یہ خوشی محض وقتی ہے کیونکہ اتنی کثیر آبادی کو سفری سہولیات بہم پہنچانے کے لیے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے۔

کیا چنگچی رکشوں کی بحالی سے بڑھ کر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا؟ بالکل ایسا ممکن ہے لیکن یہ معزز عدلیہ کا نہیں بلکہ منتخب شدہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کا حق ان تک پہنچائے۔ ایک ایسا شہر جو 70 فیصد ریونیو دے کر ملک کی معیشت کو مضبوط سہارا دیتا ہے کیا اس کے شہری میٹرو بس سروس یا اورنج ٹرین جیسی سفری سہولیات کے حقدار نہیں؟ اگر لاہور میں یہ منصوبے کامیاب ہوسکتے ہیں تو کراچی کے لیے کیوں نہیں؟

پبلک ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی ذاتی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں خریدنے پر مجبور ہیں، جس کی وجہ سے سڑکوں کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہر دوسرا شخص اپنی ذاتی سواری لے کر سڑک پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام معمول ہے۔ سڑکیں کشادہ کرنے کی بھی ایک حد ہے، جس کے بعد مزید کشادگی کی گنجائش نہیں رہتی۔ اور کراچی کے لیے اب یہ گنجائش اگر ختم نہیں تو بہت کم رہ گئی ہے۔ اب سڑکوں پر بڑھتی ٹریفک کا حل صرف پبلک ٹرانسپورٹ کو اس حد تک بہتر بنانا ہے کہ لوگ اپنی گاڑی کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کو ترجیح دیں۔

اس تصویر سے یہ واضح ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کس طرح سڑکوں سے رش کم کرتی ہے. — giftrunk.com
اس تصویر سے یہ واضح ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کس طرح سڑکوں سے رش کم کرتی ہے. — giftrunk.com

لوکل ٹرانسپورٹ غریب اور متوسط طبقے کے لیے بلا شبہ ایک بڑی سہولت ہے لیکن ہمارے ملک میں کسی بھی نظام کی باقاعدہ اور درست شکل موجود نہیں اور قوانین کی پاسداری کا بھی فقدان ہے جس کے باعث ٹرانسپورٹ کا نظام بھی درہم برہم ہے۔

اگر گاڑیوں کی مینٹیننس کا مکمل اور باقاعدہ نظام ہو، قوانین پر پوری طرح عمل کیا جائے، تو یہ عوام کے لیے فرحت کا باعث ہوگا اور وہ سکون و اطمینان سے سفر کر سکیں گے۔ وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ شہریوں کی اذیت اور پریشانی کے تدارک کے لیے فوری طور پر کوئی میٹرو طرز کا جدید سفری منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے کیونکہ یہ کراچی کے شہریوں کا بنیادی حق ہے۔

حکومت سے گذارش ہے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس امر کو یقینی بنائے کہ تمام ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدر آمد کیا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں تاکہ عوام ان سے مستفید ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ شہریوں کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ وہ ان قوانین کی پابندی یقینی بنائیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

سہیل یوسف Jan 11, 2016 04:39pm
اس میں قصور کراچی کی عوام کا بھی ہے، آپ کب تک مظلوم بن کر روتے رہیں گے، اٹھیں اور اس شہر کے لیے اپنی آواز بلند کیجئے۔ جن جماعتوں کے پاس گزشتہ 30 سال سے کراچی ہے انہوں نے ریسکیو 1122، میٹرو، دانش اسکول اور ایسا ہی کوئی ایک ادارہ بنایا ہوتو بتائیں۔ کوئی ماڈل کلینک، کوئی ایک اسکول ، پانچ ڈالر کی کوئی غیرملکی انویسٹمنٹ ، کوئی ہسپتال، کچھ بھی نہیں۔ اس شہر کو ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو حکومتوں کے آنے جانے کے باوجود بھی کام کرتے رہیں۔ اگر بہاولپور کے لیے شمسی فارم کی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے تو کراچی میں بھی انویسٹمنٹ آسکتی ہے اور اب کراچی کے حالات بہت سازگار ہیں۔ تھوڑا صبر اور بہت ذیادہ محنت سے یہ شہر عظیم ہوجائے گا اور اس چھوٹے پاکستان کا فائدہ پورے ملک کو ہوگا کیونکہ کراچی غریب عوام کا شہر ہے۔
عائشہ بحش Jan 11, 2016 05:07pm
عوامی مسائل کے حل کے لیے پرعزم ہیں۔ کیا یہ سیاست کرتی ہیں ؟
فہیم Jan 11, 2016 05:44pm
کراچی کے چنگ چی رکشے، لوگوں میں احساس کمتری پیدا کر رہے ہیں۔ یہ احساس کمتری دو طرح کی ہے ایک طبقاتی تقسیم کی۔ شہرکے اندر ہی غریب اور امیر طبقے کی تقسیم کا یہ معیار بن رہا ہے، دوسرا احساس کمتری صوبائی اوروفاقی سطح کا ہے۔ کیوں کہ کراچی ٹیکس و تجارت کی مد میں ملکی خزانے کو اربوں روپے دینے والا شہر ہے۔ چند سال قبل جب کراچی میں اے سی بسیں مسافروں کے لیے دستیاب تھیں تب لاہورمیں چنگ چی چلتے تھے مگر آج حکمرانوں کی ترجیحات و عدم ترجیح نے وہاں میٹرو سروس چلا دی ہے اور ٹیکس و تجارت کی صورت میں ملکی معیشت کو سب سے زیادہ سہارا دینے والے شہر کے باسی اب بھی کھٹارا بسوں اور اڑن کھٹولوں کے رحم و کرم پر ہیں۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 11, 2016 09:16pm
کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے جس بھی علاقے، شہرمیں کوئی بھی ترقیاتی کام ہو، عوامی فلاحی منصوبہ ہو، اس کی پلاننگ شارٹ ٹرم کی جاتی ہے لانگ ٹرم نہیں۔ یعنی مستقبل کے پانچ سال کا اندازہ کھوپڑی میں رکھ کر منصوبہ کی منظوری دے دی جاتی ہے لیکن کھوپڑی میں بادام نہیں ڈالے جاتے جس کی وجہ سے بہت سے پہلو غور کے لیے ظہورپذیر نہیں ہو پاتے۔ اس عمل کو پڑھی لکھی جاہلیت کہہ لیا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ لاہور میں ن لیگ نے زرداری دور میں مین سڑکیں لگ بھگ ڈبل چوڑی کر دی تھیں، درجنوں انڈر پاسز کا جال بچھایا گیا، میٹرو چلائی گئی اور اب میٹرو ٹرین کا منصوبہ جاری ہے آج دیکھیں یہاں لاہور میں روزانہ بدترین ٹریفک جام رہتا ہے جس کی وجہ ٹریفک کا اژدہام ہے جس نے چوڑی کی ہوئی سڑکوں کو بھی چھوٹا ظاہر کر دیا ہے۔ چنگ چی رکشہ ہو یا سی این جی رکشہ ہو، یہ بہت خطرناک سواری ہے۔ لیکن غریبوں کے لیے اس سواری پر چڑھنا مجبوری ہے کیونکہ سستی ہے۔ لانگ ٹرم منصوبہ بندی کیے بغیر تمام منصوبے چاہے ٹرانسپورٹ کا ہو، صحت کا ہو، تعلیم کا ہو، چار دن کی چاندنی ہوتی ہے۔ جیسے ریشماں نے گایا تھا۔ چار دناں دا، اے میل اوئے ربا، بڑی لمی جدائی۔۔
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Jan 12, 2016 10:14am
1970 سے 1980 کے درمیان کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر 104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں، جن میں سے 24 ٹرینیں لوکل لوپ ٹریک اور 80 مین ٹریک پر چلائی گئیں۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی جب کہ پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور کراچی سٹی اسٹیشن سے ملیر چھاؤنی تک ٹرینیں چلا کرتی تھیں جن سے ہزاروں لوگ روز مستفید ہوتے تھے۔ اب بھی جس دن اس شہر میں یہ سر کلر ریلوے دوبارہ شروع کردی گئیں تو یقین کریں اس شہر میں 90 فیصد ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوجائینگے
sami Jan 12, 2016 02:30pm
dosra bohat sa tabqat ko faida pochane ka liya Transport ka nizam sahi nahi kiya ja raha ha,