سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کا کیس 7 سال بعد ختم

13 جنوری 2016
ویڈیو کا دورانیہ 2 منٹ تھا .. فائل فوٹو
ویڈیو کا دورانیہ 2 منٹ تھا .. فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سوات میں 2009 میں 17سالہ لڑکی چاند بی بی کو کوڑے مارنے سے متعلق ویڈیو جعلی ثابت ہونے پر ازخود نوٹس نمٹا دیا۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 17 سالہ لڑکی چاند بی بی کو کوڑے مارنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ گلہ بان بچی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو جعلی تھی، جعلی ویڈیو کو میڈیا پر ریلیز کیا گیا۔

قبل ازیں حکومتی وکیل نایاب گردیزی نے عدالت کو بتایا کہ وہ ویڈیو جعلی نکلی تھی، چاند بی بی اور اس کے خاوند نے بیان دیا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

خیال رہے کہ 3 اپریل 2009 کو ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں طالبان کے ایک گروہ کی جانب سے 17 سالہ لڑکی چاند بی بی کو کوڑے مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

2 منٹ کی ویڈیو موبائل فون سے بنائی گئی تھی، جس میں سیاہ برقعے میں ملوث لڑکی کو 34 کوڑے مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے خبر کو نمایاں کرکے نشر اور شائع کیا جبکہ پاکستان کے حوالے سے مختلف منفی آراء بھی قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔

2009 میں سوات میں طالبان کا کنٹرول تھا، طالبان کے ترجمان مسلم خان نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دیا تھا، طالبان کا کہنا تھا کہ بعض مغربی نواز این جی اوز نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے یہ ویڈیو بنائی ہے جبکہ یہ این جی اوز حکومت اور طالبان کے امن معاہدے کو ختم کرنا چاہتی ہیں.

اس حوالے سے 2009 میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی ثمر من اللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ جن افراد نے لڑکی کو پکڑا ہے ان میں اس کا بھائی بھی شامل ہے۔

ثمر من اللہ نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس معاملے میں مرکزی کردار لڑکی کے پڑوسی نے ادا کیا ہے۔

ویڈیو سامنے آنے پر اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

اس حوالے سے ایک روز بعد ہی ایک شخص شوکت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ویڈیو اس نے بنائی تھی جبکہ لڑکی کو سزا دینے کی وجہ ذاتی مخاصمت قرار دی تھی۔

شوکت کا کہنا تھا کہ لڑکی کو کوڑے شادی سے انکار پر مارے گئے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خاتون طاہرہ عبد اللہ کا کہنا تھا کہ طالبان کا یہ عمل غیر انسانی ہے، ہمیں مشترکہ طور پر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

تین روز بعد 6 اپریل 2009 کو سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس واقعے کا سو موٹو نوٹس لیا تھا اور 15 روز میں معاملے کی رپورٹ طلب کی تھی۔

15 روز بعد اس وقت کے وفاقی سیکریٹری داخلہ کمال شاہ نے بتایا تھا سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو جعلی ہے۔

واضح رہے کہ یہ ویڈیو سامنے آنے کے ایک ماہ بعد حکومت اور طالبان میں ہونے والے امن معاہدہ ختم ہو گیا تھا اور فوج نے سوات میں آپریشن راہِ راست کیا تھا جس کے بعد سوات سے کئی لاکھ افراد نے نقل مکانی کی تھی جبکہ 2009 میں پاکستان میں خودکش حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا، 2009 میں پاکستان کی تاریخ میں ایک سال میں سب سے زیادہ 76 خود کش حملے کیے گئے تھے.

اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ایک اور خاتون سائرہ بی بی نے چار باغ میں ایک مقدمہ درج کروایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس ویڈیو میں دکھائی جانے والی لڑکی وہ ہے، اس خاتون کے دو بچے بھی تھے جبکہ اس نے ایف آئی آر میں فضل ہادی نامی شخص کو نامزد کیا تھا جس کو 2012 میں سوات سے گرفتار کیا گیا تھا، سوات پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ 2009 میں ویڈیو والا معاملہ سامنے آنے کے بعد سندھ فرار ہو گیا تھا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

تبصرے (1) بند ہیں

WAJID Jan 13, 2016 03:48pm
NO COMMENTS FROM SO CALLED LIBERALS