کرکٹ کے 'داغدار ہیرو' کا چھوٹا سا گاؤں

15 جنوری 2016
محمد عامر کے گھر کے ڈرائنگ روم کی تصویر — فوٹو/ مرزا خرم شہزاد
محمد عامر کے گھر کے ڈرائنگ روم کی تصویر — فوٹو/ مرزا خرم شہزاد

گوجر خان: سطح مرتفع پوٹوھار کے علاقے میں سرسبز گندم کی فصل پکنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا اور بنجر زمین پر اگائی گئی فصل بارانِ رحمت کی منتظر تھی۔

ان ہی ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان ایک چھوٹا سا گاؤں بھی آباد تھا جس کے آخر میں ایک سب سے چھوٹا اور پیلے رنگ کا گھر موجود تھا۔

تحصیل گوجر خان کی یونین کونسل چھانگا بنگیال کے گاؤں جاندھاراں کا یہ گھر پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیفٹ آرم فاسٹ باؤلر محمد عامر کا تھا، جنہوں نے 2009 میں اپنے کیریئر کی شروعات کرکے دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچادیا، لیکن پھر 2010 میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے جال میں پھنس گئے۔

یہ 18 سالہ نوجوان اپنے کیریئر کے ایک سال کے دوران 14 ٹیسٹ، 15 ایک روزہ اور 18 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 99 وکٹیں حاصل کرچکا تھا لیکن پھر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث قرار پانے پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ان پر پابندی عائد کردی.

ایک ہی سال میں کامیابیوں کی بلندی کو چھونے کے بعد محمد عامر اپنے اہلخانہ سمیت لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس منتقل ہوگئے۔

گاؤں جاندھاراں میں اب محمد عامر کے بہنوئی محمد اشرف اور بہن ان کے آبائی گھر اور اُس زرعی زمین کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جو محمد عامر کے کرکٹ اسٹار بننے سے قبل اس خاندان کا ذریعہ معاش ہوا کرتی تھی۔

انگلینڈ کے خلاف 2010 میں ٹیسٹ میچ کے دوران جان بوجھ کر نو بال کے جرم میں آئی سی سی کی جانب سے محمد عامر پر پابندی کے بعد ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے اشرف بتاتے ہیں گزشتہ 5 سال ہم پر بہت بھاری گزرے، ایک وقت میں ایسا بھی لگتا تھا کہ اگر عامر کا کیریئر ختم ہوگیا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔

4 کمروں پر مشتمل گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے محمد اشرف، عامر کی کرکٹ میں دوبارہ واپسی اور نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کرکٹ ٹیم میں شمولیت پر انتہائی خوش دکھائے دیئے، ہم جہاں بیٹھے تھے اس کے پیچھے محمد عامر کی ٹرافیز، شیلڈز اور سفید کِٹ والی تصویر بھی موجود تھی۔

محمد اشرف نے کہا کہ وہ کرکٹ میں واپسی کا کریڈٹ عامر کی ہمت کو دیں گے، عامر ایک بہادر لڑکا ہے جو مشکلات سے کبھی نہیں گھبرایا، انہوں نے اس کے جیسا مضبوط انسان اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی)، آئی سی سی، پاکستانی قوم اور میڈیا کی سپورٹ اور احسان کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

اس موقع پر انہوں نے محمد عامر پر بے جا تنقید کی تلخ یادوں کو بھی تازہ کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت محمد عامر اپنی پابندی کی مدت پوری کر رہے تھے، اُس وقت کچھ لوگ اسے بے جا تنقید اور بے بنیاد پراپیگنڈے کا نشانہ بنا رہے تھے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس مشکل وقت سے باہر آگئے۔

جس وقت ہم محمد اشرف سے بات کر رہے تھے، ڈرائنگ روم کے باہر محمد عامر کا 8 سالہ بھانجا محمد کیف اپنے دوستوں کے ساتھ قنچے کھیل رہا تھا اور دھوپ میں اس کے گلابی گال مزید چمک رہے تھے۔

گاؤں کی سڑک سے گزرتے ہوئے ریٹائرڈ فوجی سپاہی غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ عامر بہت اچھا لڑکا ہے، وہ بہت شائستہ طبیعت رکھنے والا لڑکا ہے اور ہر کسی کو عزت دیتا ہے، اس کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر ہم بہت خوش ہیں۔

گاؤں کے ایک اور رہائشی 31 سالہ طاہر محمود نے کہا کہ گاؤں میں سب سے اچھا وہ وقت ہوتا ہے، جب عامر ہر 2 ماہ بعد یہاں آتا ہے اور ہر کوئی اس سے ملنے کا طلب گار ہوتا ہے۔

کئی شیریں یادوں کے ساتھ گاؤں والوں کے ذہن میں یہ سوال بھی موجود ہے کہ پتہ نہیں محمد عامر میچ فکسنگ کے تنازع میں کیسے پھنس گیا۔

گاؤں کے مزدور واجد حسین کا کہنا تھا کہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ عامر نے کوئی غلطی کی ہے یا نہیں، لیکن جس بات کا ہمیں یقین ہے وہ یہ ہے کہ عامر ایک مہذب اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، ان کا خاندان غریب ضرور تھا لیکن دھوکے باز نہیں۔

یہ مضمون 15 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں