ایلان کردی بھی چارلی ہیبڈو کی شرانگیزی کا شکار

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2016
دائیں جانب چارلی ہیبڈو کا شائع کردہ خاکہ جبکہ بائیں جانب ملکہ رانیہ کا شئیر کیا گیا کارٹون ... فوٹو : ٹوئٹر
دائیں جانب چارلی ہیبڈو کا شائع کردہ خاکہ جبکہ بائیں جانب ملکہ رانیہ کا شئیر کیا گیا کارٹون ... فوٹو : ٹوئٹر

پیرس: فرانسیسی جریدہ چارلی ہیبڈو کی شرانگیزی سے ترکی کے ساحل پر ہلاک ہونے والے 3 سالہ شامی مہاجر بچہ ایلان کردی بھی محفوظ نہ رہا۔

فرانس کے رسالے نے شامی تارک وطن بچے ایلان کر دی کا ایک انتہائی شرمناک خاکہ شائع کیا ہے۔

ایلان کی تصاویر نے شامی مہاجرین کی مشکلات کو اجاگر کیا۔۔۔ فائل فوٹو: ٹوئٹر
ایلان کی تصاویر نے شامی مہاجرین کی مشکلات کو اجاگر کیا۔۔۔ فائل فوٹو: ٹوئٹر

رسالے کے کارٹون میں ایلان کو بڑا ہو کر کر ایک عورت کے پیچھے بھاگتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس کے ساتھ فرانسیسی زبان میں جملہ تحریر ہے کہ " ایلان کردی بڑا ہو کر جرمنی میں عورتوں پر جنسی حملے کرنے والوں جیسا بنتا"۔

جریدے کے کارٹون پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے جب کہ اردن کی ملکہ رانیہ نے بھی چارلی ہیبڈو کے کارٹون کے خلاف بطور احتجاج ایک کارٹون شیئر کیا ہے۔

اس کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ ایلان کردی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بڑا ہو کر ڈاکٹر بن گیا ہے۔

ملکہ رانیہ نے کارٹون کے ساتھ تحریر کیا ہے کہ "ایلان کردی بڑا ہو کرڈاکٹر، استاد یا محبت کرنے والا والد ہو سکتا تھا"۔

ملکہ رانیہ نے انگریزی، عربی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان میں اس پر جملہ تحریر کیا ہے۔

دوسری جانب ٹوئٹر پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد چارلی ایبڈو کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔

کچھ افراد نے ایک ایسا خاکا شیئر کیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ چارلی ہیبڈو کا 'قلم' بھی ایلان کردی کے قتل میں شامل ہے۔

العربیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایلان کردی کے کینیڈا میں مقیم خاندان نے بھی اس کارٹون کی شدید مذمت کی ہے۔

یاد رہے کہ چارلی ہیبڈو نامی میگزین کو پہلی مرتبہ اس وقت شہرت ملی جب اس نے ڈنمارک کے روزنامہ جے لینڈز-پوسٹان میں فروری 2006 میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکے شائع کیے بعد ازاں چارلی ہیبڈو نے 2011 میں ایک بار پھر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی۔

فرانسیسی جریدے میں پیغمبر اسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع ہونے پر دنیا بھر میں احتجاج سامنے آیا تھا جبکہ اس کے بعد رسالے کے دفتر پر آتش گیر مادے سے حملہ بھی ہوا تھا البتہ اس میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : پیرس میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ، 12 ہلاک

گزشتہ برس 7 جنوری 2015 کو چارلی ہیبڈو پر دو بھائیوں نے مسلح حملہ کیا تھا جس میں جریدے کا ایڈیٹر، 5 کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے.

ابتدائی رپورٹس یہ سامنے آئی تھیں کہ رسالے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی تصویر شیئر کرنے پر یہ حملہ ہوا ہے تاہم بعد ازاں اس حملے کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی تھی اور اس کی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علی وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہی بتائی گئی تھی.

ان حملوں کے بعد میگزین کو زبردست مالی فوائد حاصل ہوئے اور حکومت کی جانب سے 10 لاکھ یورو ملنے کے علاوہ اس کی اشاعت 60 ہزار کاپیوں سے بڑھ کر ایک دم 30 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔

واضح رہے کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ چارلی ہیبڈو نے ایلان کی ایسی تصاویر شائع کی ہیں اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ ایلان کی توہین آمیز تصاویر جریدے میں شائع ہوتی رہی ہیں۔

مزید پڑھیں : شامی بچے کی دل لرزا دینے والی تصویر

خیال رہے کہ ایلان کی ساحل پر پڑی ہوئی لاش کی تصاویر سامنے آنے پر دنیا بھر میں شامی مہاجرین کے لیے آواز اٹھائی گئی جبکہ یورپی ممالک میں ان کو آنے کی اجازت دی گئی۔

جرمنی نے سب سے زیادہ مہاجرین کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہا البتہ 2015 کے اختتام پر نئے سال کی تقریبات کے دوران مبینہ طور پر بعض شامی مہاجرین کی جانب سے خواتین سے بدسلوکی کی گئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

تبصرے (1) بند ہیں

Vicky Jan 18, 2016 11:16am
Shame on charlie Hebdo