اسلام آباد: فراڈ اور کردار کشی کے لیے فیس بک کے غلط استعمال کے حوالے سے متعدد خبریں رپورٹ ہوتی رہتی ہے تاہم حالیہ سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک شخص نے اپنی بہن کی طلاق کا بدلہ لینے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا.

محمد عثمان پر اپنے سابق بہنوئی بلال آصف، اس کی پہلی بیوی اور دیگر عزیزوں کے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنا کر، اس پر خاتون کی نازیبا تصاویر شائع کرکے بد نام کرنے کا الزام ہے۔

بلال آصف نے عثمان کی بہن سے دوسری شادی کی تھی اور کچھ ہی عرصے بعد اسے طلاق دے دی تھی۔

خیال رہے کہ مذکورہ الزام پر قانونی چاہ جوئی کے لیے قانون موجود نہیں ہے۔ گذشتہ سال حکومت نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا قانون برائے 2015 پیش کیا تھا تاہم مذکورہ بل پارلیمنٹ میں زیرِ التواء ہے.

سینیئر سول جج عبدالغفور کاکڑ نے مذکورہ ملزم کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کردیا۔

ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ، کمپیوٹراور ایک موبائل فون برآمد کیا گیا ہے، جس کے معائنے سے معلوم ہوا کہ ملزم نے متعدد جعلی فیس بک کاؤنٹس بنا رکھے تھے۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ ملزم چاہتا تھا کہ بلال آصف اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے اور اسی لیے اس نے 'بدنیتی پر مبنی مہم' کا آغاز کیا۔ عثمان نے بیہودہ تصاویر، بلال آصف اور ان کی اہلیہ کا موبائل نمبر جعلی کاؤنٹ پر اَپ لوڈ کیا۔

اس کے ساتھ ہی ملزم نے قابل اعتراض اور اخلاق سوز پیغامات بھی اَپ لوڈ کیے۔

ملزم کے خلاف ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل میں ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق عثمان نے بدلہ لینے کے لیے بلال آصف کی پہلی بیوی کے نام سے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنایا تھا، جس کے بارے میں اس کا گمان تھا کہ آصف اور اس کی پہلی بیوی نے اس کی بہن کے خلاف ایک سازش کی تھی، جس کے نتیجے میں آصف اور اس کی بہن کے درمیان طلاق ہوگئی۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ پاکستان ٹاؤن کے رہائشی عثمان نے جعلی فیس بک اکاؤنٹ پر قابل اعتراض تصاویر شائع کرنے کے بعد آصف اور اس کے عزیزوں کو بیہودہ اور دھمکی آمیز ایس ایم ایس بھی بھیجے۔

ایف آئی آر کے مطابق عثمان کے خلاف الیکٹرانک ٹرانسیکشن آرڈیننس 2002 (ای ٹی او) کی دفعہ 36 اور 37 کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔

سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل طارق محمود جہانگیری نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ ای ٹی او کا قانون پرانا ہوچکا ہے اور جدید سائبر کرائم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم کرنے والوں کے خلاف بھاری جرمانوں کی سزائیں ہونی چاہیئیں.

انھوں نے مزید بتایا کہ اس سے قبل ایسے ہی ایک کیس میں ایک شخص نے جائیداد کے تنازع کے باعث ایک جعلی اکاؤنٹ بنا کر اپنی بھتیجیوں کی تصاویر اور ان کے والد کا فون نمبر اَپ لوڈ کردیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ملزم نے لڑکیوں کو جسم فروشی کا دھندا کرنے والی بتایا اور ان سے رابطے کے لیے ان کا رابطہ نمبر بھی اَپ لوڈ کیا تھا'، تاہم جج نے ملزم کو پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 419 کے تحت سزا سنائی۔

خیال رہے کہ پی پی سی کی مذکورہ دفعہ جعل سازی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ہے۔

یہ خبر 25 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں