اسلام آباد: افغانستان کے ایک اہم عسکری دھڑے کی جانب سے امن مذاکراتی عمل کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت میں شامل ہونے کے امکان کو مسترد کرنے اور اس کی افادیت پر سوالات اٹھانے کے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت کا عمل خطرے میں پڑھ گیا ہے۔

خود کو امارات اسلامیہ کہلوانے والے طالبان، یہ نام انھوں نے افغانستان پر حکومت کرت ہوئے اپنی تنظیم کے لیے استعمال کیا تھا، نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'ہم واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ امارات اسلامیہ کے رہنما نے کسی کو بھی اس اجلاس میں شرکت کیلئے اجازت نہیں دی ہے'۔

مذکورہ بیان میں ایک بار پھر دہرایا گیا کہ گروپ کی جانب سے مذاکرات میں شمولیت کیلئے لگائی جانے والی شرائط بتائی جاچکی ہیں، جن میں افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء، طالبان رہنماؤ پر موجود پابندیوں کا خاتمہ اور افغان جیلوں میں قید طالبان قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ مذکورہ بیان ملا اختر منصور کی زیر قیادت افغانستان کے اہم عسکری دھڑے کی جانب سے سامنے آیا ہے جو کہ افغان جنگ میں غالب عسکری دھڑا سمجھا جاتا ہے اور اسے افغان حکومت کی جانب سے 'جائز مذاکرات' کے عمل میں فریق کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

قطر کے شہر دوحہ میں موجود مذکورہ طالبان دھڑے کا سیاسی دفتر سے ان کی نمائندگی کرتا ہے۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ ماہ دوحہ کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد قطر کی قیادت سے ان مذاکرات کیلئے مدد اور حمایت طلب کرنا تھا۔

طالبان کے حالیہ بیان نے رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے والے افغان امن مذاکراتی عمل کی اُمیدوں کو ختم کردیا ہے جس کی ٹائم لائنز چار ممالک نے طے کی تھی، جن میں پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین شامل ہیں اور اس گروپ کو افغان امن مذاکرات کیلئے چار رکنی تعاون گروپ (کیو سی جی) کا نام دیا گیا تھا۔

یہ دوسری بار ہوا ہے کہ کیو سی جی کی مقرر کردہ تاریخ پر مذاکرات کے آغاز کا امکان نہیں ہے۔ اس سے قبل اس گروپ نے فروری کے پہلے ہفتے میں مذاکرات کے آغاز کو حتمی شکل دی تھی۔

یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات گزشتہ سال جولائی میں اس وقت تعطل کا شکار ہوگئے تھے جب افغان طالبان کے بانی قائد ملا محمد عمر کی موت کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آگئیں تھی، جن میں کہا جارہا تھا کہ ملا عمر دو سال قبل ہلاک ہوچکے ہیں۔

ابتدائی طور پر طالبان نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کی تھی لیکن بعد ازاں انھوں نے ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا امیر مقرر کرتے ہوئے ملا محمد عمر کی 'موت' کی تصدیق کی تھی۔

مذکورہ افغان عسکریت پسند دھڑے نے مذاکرات کی میز پر چند شرائط پر عمل درآمد کے بغیر واپس آنے کو ناگزیر قرار دیا ہے، جن میں افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاء، افغان فورسز کے آپریشنز اور فضائی کارروائیوں کا اختتام شامل ہے۔

طالبان کا اسرار ہے کہ 'امن مذاکرات مذکورہ پیش رفت کے بغیر بے معنی ہیں'۔

'افغان امن مذاکراتی عمل' کیلئے اب بھی پُراُمید

مذکورہ رکاوٹ کے باوجود افغان امن مذاکرات کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کے پاکستانی میزبانوں نے اس 'اُمید' کا اظہار کیا ہے کہ مذاکراتی عمل جلد آغاز ہوگا۔

اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے مذکورہ بیان کو طالبان کی جانب سے دباؤ کا حربہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے باعث پورا عمل متاثر نہیں ہوگا۔

'یہ مذاکرات سے قبل اپنا ایجنڈا مقرر کرنے کیلئے ایک طے شدہ حربہ ہے۔ ہم صرف یہ اُمید کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی اس مقرر مؤقف سے پیچھے ہٹیں گے'۔

یاد رہے کہ کیو سی جی کے گزشتہ ماہ ہونے والے اجلاس میں ایک 'روڈ میپ' اختیار کیا گیا تھا جس میں امن مذاکراتی عمل کیلئے مختلف مراحل اور ٹائم لائنز پیش کی گئیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس بات کو یاد رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ روڈ میپ کوئی اختتام نہیں ہے، یہ صرف ایک ذریعہ ہے۔ اس میں آگے بڑھنے کا عمل، واپسی کا عمل، بہتری اور ایڈجسمنٹ ممکن ہے'۔

یہ بھی یاد رہے کہ کیو سی جی افغان امن مذاکراتی عمل کو طالبان کے موسم سرما کی کارروائیوں کے آغاز سے قبل شروع کرنا چاہتا ہے، جس کا مقصد تشدد میں کمی لانا ہے۔

پاکستان کیلئے افغانستان کے سفیر حضرت عمر زاخیلوال نے اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ مذاکراتی عمل کا جلد آغاز ہوگا۔

اسلام آباد پر دباؤ بڑھنے کا امکان

طالبان کی جانب سے مذاکرات پر دکھائی جانے والی سختی پاکستان کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔

افغانستان کئی عرصے سے یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ پاکستان طالبان کو تحفظ دینا بند کردے۔ لیکن پاکستان نے حال ہی میں پہلی بار امریکا سے ہونے والے اسٹریٹیجک مذاکرات کے دوران یہ اعلان کیا ہے کہ وہ طالبان کو اپنی زمین استعمال کرنے کی مزید اجازت نہیں دے گا۔

مشترکا بیان میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان ایک بار پھر اپنے وعدے کو دہراتا ہے ،ملک میں جاری نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے کہ طالبان اب پاکستانی سرزمین استعمال نہیں کرسکیں گے'۔

یہ خبر 06 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں