مذہبی قوم پرستی کا بانی کون؟

10 مارچ 2016
دائیں سے بائیں: بپن چندرا پال، بال گنگا دھر تلک، لالہ لجپت رائے۔
دائیں سے بائیں: بپن چندرا پال، بال گنگا دھر تلک، لالہ لجپت رائے۔

مذہب سے جڑی قوم پرستی نے بحیثیت مجموعی جنوبی ایشائی خطہ کا حلیہ اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگوں پر مشتمل یہ خطہ "لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ" کی عملی تصویر بنا ہے۔

آج اس خطے میں بسنے والے ہندو، مسلم، سکھ اور مسیحی سب ہی میں مذہبی قوم پرستی کا اثر نمایاں ہے۔ اس بگاڑ کی کچھ وجوہات تو نو آبادیاتی دور کی پالیسیوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں، تو اس کا ایک حوالہ مقامی بھی ہے۔

ایجنڈے یا بیانیے معاشرے میں اپنا اثر اُسی وقت بڑھاتے ہیں جب "اندر باہر" میں سانجھ ہوتی ہے۔ نہ تو صرف "باہرلوں" کو کوسنے سے بات سمجھ آتی ہے اور نہ ہی سارا ملبہ مقامی کرداروں پر ڈالنے سے پورا سچ سامنے آتا ہے۔ اس لیے ہمیں تجزیہ کرتے وقت وحدت الوجود کو سامنے رکھتے ہوئے اندر باہر کا تجزیہ کرنا چاہیے۔

میں ان صفحات پر مذہبی بنیاد پرستی اور اس کے پیچھے چھپی سیاست کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، اور آج آپ کا تعارف اس ٹرائیکا یا تگڑم سے کروا رہا ہوں جنہوں نے نو آبادیاتی دور میں مذہبی قوم پرستی کی بنیادیں رکھیں تھیں۔

یہ تھے بال گنگا دھر تلک (23 جولائی 1856 تا یکم اگست 1920) لالہ لجپت رائے (28 جنوری 1865 تا 17 نومبر 1928) اور بپن چندر پال (7 نومبر 1858 تا 20 مئی 1932)۔

بال گنگا دھر تلک مہاراشٹر کے باسی تھے۔ اس علاقے میں مراٹھی بولنے والے ہندوﺅں کی اکثریت بھی تھی اور سلطنت موریہ، شیوا جی اور بمبئی سے تعلق پر تقاخر بھی۔ مرہٹہ قوم کا المیہ یہ تھا کہ مغلوں اور افغانوں سے لڑتے ہوئے مرہٹے 19 ویں صدی کے اوئل میں انگریزوں کے محکوم بنے تھے، اور اس محکومی کے ردعمل میں شکست خوردہ مرہٹے بتدریج ہندو قوم پرستی کی طرف بوجوہ غلطاں ہوئے۔

بال گنگا دھر تلک کے دیگر دونوں ساتھی لالہ لجپت رائے اور بپن پال ایسے علاقوں میں پیدا ہوئے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ لالہ جی پنجاب اور پال جی بنگال میں اقلیتی مذاہب کے پیروکار تھے۔ دونوں صوبوں میں مسلمانوں کا تناسب نہ صرف %50 سے زیادہ تھا بلکہ اکثر اضلاع میں تو مسلم تناسب 60 سے 80 فیصد بھی تھا۔ دونوں صوبوں میں بہت کم اضلاع ایسے تھے جہاں صرف ہندو یا صرف سکھ 50 فیصد سے زیادہ ہوں۔

بپن صاحب کا تو یہ المیہ بھی تھا کہ وہ مسلم اکثریتی علاقے مشرقی بنگال کے ضلع حبیی گنج میں پیدا ہوئے تھے۔ خود لالہ جی بھی پنجاب کے ضلع موگا میں پیدا ہوئے تھے جس کے اردگرد پنجابی مسلمانوں کے بڑے اضلاع فیروز پور اور لدھیانہ تھے۔

1849 میں پنجاب پر قبضے کے بعد انگریزوں کا تسلط پورے برٹش انڈیا پر مسلمہ حقیقت بن چکا تھا۔ یہ تینوں حضرات اسی دور میں 1856 سے 1865 کے درمیان دنیا میں وارد ہوئے۔ جدید انگریزی تعلیم سے مستفید ہونے کے بعد تینوں کے سوچ میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر محکومی کا حل ہندو قوم پرستی کی ترویج ٹہرا۔

یہ پرچی (ووٹ) اور برچھی (مسلح جدوجہد) دونوں کے استعمال کو جائز سمجھتے تھے۔ نتیجہ اگر 'ہندو راج' کی صورت میں برآمد ہو تو انہیں ہر طریقہ و نظام قبول تھا۔ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے تینوں نے آل انڈیا کانگرس کا رخ کیا کیونکہ ولائتی تعلیم، امریکا و یورپ کے دوروں اور محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے 'ووٹ کی سیاست' کی بھنک انہیں لگ چکی تھی۔

وہ انگریز کی ہندو مذہب میں مداخلت کے سخت خلاف تھے، اور ان کی انگریز مخالفت کی وجوہات میں غیر ملکی تسلط کے بجائے مذہب میں مداخلت کو اولیت حاصل تھی۔ ستی اور کمسنی میں شادی جیسی روایات کو ختم کرنے کے انگریزی قوانین کے خلاف یہ آگے آگے رہتے۔ اگر کہیں قوم پرستی اور مذہب میں تکرار ہوتی تو یہ مذہب کو اولیت دیتے اور جب مذہب اور جدیدیت میں تکرار ہوتی تب بھی وہ عقائد پر پہرہ دیتے۔

سیاسی مذہبیت کے دلدادہ ان تینوں رہنماﺅں کی تحریریں دستیاب ہیں جس میں وہ 1857 کے غدر کو ہندوﺅں کی جنگ آزادی کہتے، اور اس کے لیے انہوں نے جنگ آزادی کا نام نہاد ہیرو منگل پانڈے کو بنایا تھا۔

20 ویں صدی کے پہلے دو عشروں میں ان کی مذہبی سیاست نے بہت زور پکڑا۔ بنگال کی تقسیم کو وہ دھرتی کی تقسیم کی بجائے مسلم بنگال کی فتح کی صورت دیکھتے تھے۔ وہ کانگریس کو گوپال کرشن گوکھلے، جناح، دادا بھائی نوروجی، موتی لال نہرو جیسے لبرل عناصر سے پاک کرتے ہوئے مذہبی قوم پرستی میں رنگا دیکھنے کے خواہاں تھے۔

لبرل ازم اور قوم پرستی کو مذہب کے تابع رکھنے کے خواہاں لال۔ بال۔ پال کی سیاست کو بعد ازاں مہاتما گاندھی، ہندو مہا سبھا، آریہ سماجی تحریک کے گوریلوں اور سردار پٹیل نے خوب ورتا۔ بعد میں ان کی پھیلائی 'سیاسی مذہبیت' کا اثر مسلمانوں اور سکھوں پر بھی ہوا۔

1901 میں جب انگریزوں نے پنجاب کے 6 اضلاع کو کاٹ کر پنجابیوں اور پٹھانوں پر مشتمل صوبہ سرحد بنایا تھا تو اسے صوبائی حقوق نہ دیے تھے۔ اسی طرح سندھ کو 1847 سے بمبئی کے زیر تسلط رکھا ہوا تھا جبکہ بلوچستان کو بدستور صوبہ بنانے سے انگریز بوجوہ گریزاں تھے۔

یہ تینوں مسلم اکثریتی علاقے تھے، اس لیے لال۔ بال۔ پال ان کو صوبائی حقوق یا ان علاقوں کو صوبہ بنانے کے شدید مخالف تھے۔ اگر ان علاقوں میں ہندوﺅں کی اکثریت ہوتی تو لال۔ بال۔ پال ان کو صوبہ بنانے یا صوبائی حقوق دلوانے کے حامی ہوتے۔ ان کی مخالفت کے باوجود 1930 کی دہائی کے پہلے نصف میں صوبہ سرحد کو صوبائی حقوق اور سندھ کو بمبئی کے تسلط سے آزادی ملی۔

1916 کے معاہدہ لکھنؤ کی حمایت انہوں نے اس لیے کی کہ اس معاہدے سے برٹش انڈیا میں موجود دونوں مسلم اکثریتی صوبوں یعنی پنجاب و بنگال میں مسلمانوں کا تناسب 50 فیصد سے کم ہو جانا تھا، اور یوں 'بھارت ماتا' میں کوئی ایک صوبہ بھی مسلم اکثریت کا نہیں رہ جانا تھا۔

انہیں انگریزوں کے پھیلائے بیانیوں سے الفت تھی کیونکہ آریاﺅں کی عظمت، مسلم حملہ آوروں کی آمد کو انہوں نے قومی بیانیے میں داخل کر رکھا تھا۔ وہ ہندوستانی (اُردو، ہندی مکس زبان جو پرانی انڈین فلموں میں چلتی ہے) کے بجائے ہندی زبان کے دلدادہ تھے مگر اپنے علاقوں میں مراٹھی اور بنگالی کے حامی بھی۔

اپنے مذہبی بیانیے کی وجہ سے یہ قوم پرستی اور جمہوریت کے جدید اطوار کو وطنی و قومی تشکیلات میں سمونے سے عاری تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لال۔ بال۔ پال کے خیالات و نظریات پر مشتمل جس یک قومی نظریہ (One Nation Theory) کی کانگرس حمایت کرتی رہی اس بارے میں دیگر گروہوں میں اضطراب بڑھا، اور ردعمل میں مسلمانوں اور سکھوں میں بھی مذہبی قوم پرستی توانا ہوئی۔

1920 میں تلک، 1928 میں لالہ جی اور 1932 میں بپن پال راہی ملک عدم ہوئے مگر جس مذہبی قوم پرستی کے بیچ وہ بوگئے تھے انہوں نے بعد ازاں بہت سے انڈے بچے دیے، اور آج پاک و ہند میں سرگرداں ہندو مسلم اور سکھ بنیاد پرست وہی ہیں جو جمہوریت اور جدیدیت کو اولیت نہیں دیتے اور نہ ہی اسے وطنی تشکیلات اور طرز حکمرانی کا نمایاں حصّہ بنانا چاہتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں