اسلام آباد: سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے مجوزہ پارلیمانی کمیشن کا سربراہ بننے سے معذرت کر لی ہے۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے پارلیمانی کمیشن کی سربراہی کے لیے رضا ربانی کا نام تجویز کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’آف شور‘ اکاؤنٹس کیا ہیں؟
آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟

- کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

- کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

رضا ربانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایوان بالا کے چیئرمین کی حیثیت سے سینیٹ کے حقوق کی حفاظت خصوصی طور پر جبکہ پارلیمنٹ کے حقوق کا خیال رکھنا عمومی طور پر میری ذمہ داری ہے، لہذا ایسی صورت میں اگر کمیشن کی سربراہی قبول کی تو مفادات کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ رضا ربانی سینیٹ کے چیئرمین ہیں البتہ ان کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنمائوں میں ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معاملات میں تحقیقات کے حوالے سے مجھے کسی بھی قسم کا تجربہ نہیں ہے۔

رضا ربانی نے بتایا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات میں حقائق کے حوالے سے کئی پیچیدہ سوالات اٹھتے ہیں جبکہ اس حوالے سے قانون اور اس کے دائر اختیار پر بھی مہارت کی ضرورت ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا تھا کہ پارلیمانی تحقیقاتی کمیشن کے لیے رضا ربانی سب سے موذوں شخص ہیں، جن کے تقرر پر حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو اعتراض نہیں ہوگا جبکہ ان کی دیانت داری سے بھی سب آگاہ ہیں۔

واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے طریقہ کار پر حزب اختلاف تقسیم نظر آتی ہے، پیپلز پارٹی اس کی تحقیقات ارکان پارلیمنٹ کے ‘پارلیمانی کمیشن’ کے ذریعے کروانا چاہتی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ‘جوڈیشنل کمیشن’ کا قیام چاہتی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق رضا ربانی کی پارلیمانی کمیشن کی سربراہی کے انکار کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا نام پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے تجویز کرنا مناسب نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ صدر کی غیر موجودگی میں قائم مقام سربراہ مملکت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ رضا ربانی کا تجویز کو قبول کرنے سے انکار انتہائی مناسب ہے۔

واضح رہے کہ دو ہفتے قبل آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں : شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں : پاناما پیپرز میں پاکستانیوں کے متعلق انکشافات

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

اس سلسلے میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ دو ہفتے گزرنے کے باوجود یہ کمیشن قائم نہیں ہو سکا ہے، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے یہ انکشاف سامنے آچکا ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق 2 چیف جسٹسز سمیت 5 سابق ججز تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سے انکار کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس اور حسن نواز کا 1999 کا انٹرویو

ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں : پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف

دستاویزات کے مطابق، وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

خیال رہے کہ یو این کمیٹی نے 2005 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ کمپنی عراق میں ’تیل کے بدلے خوراک‘ سکینڈل میں ملوث تھی۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

میڈیا مینیجر پاشازی ٹی وی سمیت دوسرے انڈین چینلز سے کاروباری معاہدے کرتے رہے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ ان میں سے عثمان سیف اللہ پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

سابق جج ملک قیوم کا، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے پی ایم ایل-ن کے رکن قومی اسمبلی ہیں، نام دستاویزات میں شامل ہے۔

لیکس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

لیکس میں بتایا گیا کہ ثمینہ درانی کم از کم تین آف شور کمپنیوں Rainbow Ltd, Armani River Ltd and Star Precision Ltd جبکہ میراج Haylandale Ltd میں بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔

تاہم ،میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ahmaq Apr 17, 2016 06:56pm
Why not government is sending a memorandum to Panama or the benificient for the return of Panama leaks money. What is the problem to deal the matter as per law of our country