اسلام آباد: پاناما لیکس کے حوالے سے حکومت کے مجوزہ تحقیقاتی کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، محدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) نے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) اپوزیشن کی مشاورت سے بنائے جانے چاہیے۔

اس کے علاوہ پیپلز پارٹی نے اپنی 4 رکنی قانونی ٹیم کا بھی اعلان کردیا، جو ان کے دعوے کے مطابق پاناما لیکس کے حوالے سے شریف خاندان کے خلاف پہلے شواہد جمع کرنے کا کام شروع کرچکی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے رواں ہفتے کا آغاز مصروف دن سے کیا اور پارلیمنٹ میں موجود دیگر تین اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی۔

ان تمام الگ الگ ملاقاتوں میں اپوزیشن رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ پاناما کمیشن، کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956 کے بجائے خصوصی قانون یا آرڈیننس کے تحت قائم کیا جائے، تاکہ طاقتور کمیشن معاملے کی تحقیقات کرسکے۔

اپوزیشن جماعتوں نے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے پی پی پی کے رہنما اعتزاز احسن کے اسلام آباد کی رہائش گاہ پر 2 مئی کو دوبارہ ملاقات پر بھی اتفاق کیا۔

پی ٹی آئی نے، جو پہلے ہی کرپشن کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کرچکی ہے، مطالبہ کیا کہ تحقیقات کا آغاز وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان سے ہونا چاہیے اور پھر اس کا دائرہ کار پاناما پیپرز میں شامل دیگر پاکستانیوں تک پھیلایا جانا چاہیے۔

حکومت پہلے ہی کمیشن کے ٹی اوآرز کو حتمی شکل دے چکی ہے اور اس بات پر زور دے رہی ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنا کام مکمل کرچکی ہے۔

پیر کو سیاسی ملاقاتوں کا آغاز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور پی ٹی آئی کے نائب پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کی ملاقات سے ہوا، جبکہ پی پی پی کی ٹیم نے بعد ازاں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کے رہنماں سے بھی ملاقاتیں کیں۔

شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے دوران خورشید شاہ نے حکومت کے مجوزہ ٹی او آرز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے بنائے گئے ٹی او آرز کے تحت پاناما لیکس کی تحقیقات مکمل ہونے میں کم از کم سو سال لگیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے، کسی بھی اپوزیشن جماعت نے ان ٹی او آرز کو تسلیم نہیں کیا، اب دیکھتے ہیں کہ چیف جسٹس اس حوالے سے کیا ردعمل دیتے ہیں۔

سینیٹ میں خورشید شاہ کے ہم منصب چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کے بعد کمیشن کی تحقیقات کا طریقہ کار اپوزیشن کی مشاورت سے بنایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک کمپنیوں کا معاملہ ہونے کی وجہ سے فارنزک آڈیٹرز کی خدمات لی جانی چاہیئں، ورنہ کسی کا احتساب نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ کمیشن بھی اپوزیشن کی مشاورت سے تشکیل دیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی نے بھی 2 مئی کو اپوزیشن جماعتوں کی ملاقات میں شریک ہونے پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن دوٹوک انداز میں حکومت کے ٹی او آرز مسترد کرچکی ہے، اس لیے اگر معاملے کی شفاف تحقیقات میں سنجیدہ ہے تو اسے ٹی او آرز کی تشکیل میں اپوزیشن کو شامل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بین الاقوامی فرم سے فارنزک آڈٹ کے بغیر آف شور کمپنیوں کے حوالے سے تحقیقات کا کوئی جواز نہیں ہے۔

بعد ازاں پی پی پی کے رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فارق ستار کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے کسی فیصلے سے قبل وزیر اعظم کو اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہیے، اگر حکومت تنہا فیصلے کرتی رہی تو اس کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بعد ازاں چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔

رہنما مسلم لیگ (ق) مشاہد حسین سید نے ڈان کو بتایا کہ ان کی جماعت اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شریک ہوگی، جبکہ ان کی جماعت بھی یی چاہتی ہے کہ کمیشن کے ٹی او آرز اپوزیشن کی مشاورت سے بنائے جائیں۔

یہ خبر 26 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں