واشنگٹن: امریکی سینیٹ نے 11 ستمبر 2001 میں امریکا پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کی جانب سے سعودی عرب کی حکومت پر مقدمے کے حوالے سے بِل منظور کرلیا۔

تاہم وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس بل کو ویٹو کرنے کی دھمکی دی جاچکی ہے۔

سعودی عرب پہلے ہی امریکی انتظامیہ کو متنبہ کرچکا ہے کہ اگر سعودی حکومت کو نائن الیون حملوں میں کسی بھی قسم کے کردار کا ذمہ دار قرار دینے کے حوالے سے قانون بنایا گیا تو وہ، امریکا میں اپنے تقریباً 750 ارب ڈالرز کے اثاثے فروخت کردے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی سینیٹ میں ’جسٹس اگینسٹ اسپانسرز آف ٹیررازم ایکٹ‘ (دہشت گردوں کے مالی معاونت کار کے خلاف انصاف کے قانون) کا بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 9/11: امریکی سیاستدان سعودیہ پر مقدمے کے حامی

اگلے مرحلے میں اس بل کو امریکی ایوان نمائندگان میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، جہاں اس پر ووٹنگ کے حوالے سے ابھی کوئی شیڈول طے نہیں کیا گیا۔

اگر اس بل کو قانون کا حصہ بنا لیا جاتا ہے تو امریکا میں دہشت گرد حملوں میں کسی بھی طرح کا کردار پائے جانے پر کسی بھی ملک کی حکومت کے خلاف مقدمہ درج کرایا جاسکے گا اور حملے کے متاثرین اس ملک سے ہرجانہ طلب کرنے حقدار ہوں گے۔

اگر سعودی حکومت کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے تو اس کی سماعت نیو یارک کی وفاقی عدالت میں ہوگی، جہاں وکلا ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملے میں سعودی عرب کے کردار کو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔

سینیٹ میں بل کی منظوری کے بعد نیوز کانفرنس کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر اور بل کے شریک اسپانسر چارلس شمر کا کہنا تھا کہ آج سینیٹ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ لواحقین دہشت گردی کے ذمہ داروں کا احتساب کر سکیں گے، چاہے وہ کوئی ملک یا قوم ہی کیوں نہ ہو۔

مزید پڑھیں: سعودیہ کی امریکا کو اثاثے فروخت کرنے کی دھمکی

دوسری جانب اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بل کی مخالفت کرے گی اور صدر براک اوباما اسے ویٹو کردیں گے۔

یاد رہے کہ نائن الیون کے واقعے میں 4 طیاروں کو ہائی جیک کرنے والے 19 میں سے 15 افراد سعودی شہری بتائے جاتے ہیں، تاہم ریاض کی جانب سے ان حملوں میں کسی بھی قسم کے کردار کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

نائن الیون کے بعد تشکیل دیئے گئے ایک امریکی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے کسی قسم کی معاونت کے شواہد نہیں ملے، تاہم وائٹ ہاﺅس پر مسلسل دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ 28 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کرے، جسے اس وقت قومی سلامتی کے نام پر تاحال خفیہ رکھا گیا ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں