اے حمید اور کمرشل آرٹ کی بیساکھی

اپ ڈیٹ 21 مئ 2016
اے حمید کے کمرشل آرٹسٹ ہونے پر تنقید ہوتی رہی ہے لیکن کیا پیسے کے لیے لکھا ہوا ادب کم تر معیار کا ہوتا ہے؟ — کری ایٹو کامنز فوٹو
اے حمید کے کمرشل آرٹسٹ ہونے پر تنقید ہوتی رہی ہے لیکن کیا پیسے کے لیے لکھا ہوا ادب کم تر معیار کا ہوتا ہے؟ — کری ایٹو کامنز فوٹو

اے حمید سے میرا تعارف جاسوسی ناول کمانڈو سیریز سے ہوا۔ تیسری جماعت میں تھے لیکن پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ گھر میں موجود ماموں کی اردو ادب کی ساری کتابیں چاٹ ڈالیں۔

شوق کو دیکھتے ہوئے والد صاحب نے ایک لائبریری کی ممبر شپ دلا دی۔ پہلی کتاب شہاب نامہ۔ شہاب نامہ سے محبت تو بعد میں کہیں جا کر شروع ہوئی، پہلے شیلف پر لگی ایکشن سے بھری کمانڈو سیریز سے آغاز کیا۔

سات جلدیں اور مہینے کے اندر ساری کی ساری ختم۔ بعد میں ٹی وی پر عینک والا جن دیکھا تو اے حمید کی جدت طرازی اور بزلہ سنجی کے مزید گرویدہ ہوئے۔

منزل منزل ان کے افسانوں کا مجموعہ تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اے حمید نے ساری زندگی رومانوی افسانے ہی لکھے۔ محبت کرنا سکھاتے تھے اور محبت کرنا جانتے تھے۔ ان کے کردار جذبے کے شیرے سے ٹپ ٹپ لتھڑے ہوتے تھے، لیکن کبھی شعوری طور پر نظریے کی تبلیغ نہیں کرتے تھے۔

جنگلوں میں رہنے والی کانتا زہریلی لڑکی ان کے ہیرو پر مر مٹتی تو ضرور تھی، مگر اپنے سانپوں سے، جوگ سمندر سے ناتا بھی نہیں توڑتی تھی۔ عینک والا جن، زکوٹا جادوگر کسی نظریاتی اساس کی حفاظت کرتا نظر نہیں آتا تھا۔ منٹو کے ساتھی تھے، زندگی کی دو دھاری تلوار کے کند پہلو نہیں تلاشتے تھے۔

اے حمید کے اندر ناسٹیلجیا کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ امرتسر میں پیدا ہوئے۔ اپنے پہلوان والد کے اکھاڑے کی سختیوں سے بھاگ کر لاہور آگئے، مگر اپنی یادوں سے اکھاڑے کے گرد لگے امرود کے پیڑ نہ مٹا سکے۔

آوارہ گردی کے دنوں میں انہوں نے ہندوستان کا چپہ چپہ دیکھ لیا تھا۔ کلکتہ، سندربن، آسام، بمبئی، رنگون، بنگال، نجانے کس کس دیس کی یادیں آباد تھیں ان کے اندر۔ ساری زندگی انہی رنگوں سے نقش گری کرتے رہے۔

ناسٹیلجیا وہ خوش مزاج آئینہ ہے جو آپ کے ماضی کے رنگوں میں سے بہترین رنگ چن کر، ایک گلدستے میں پرو کر دکھاتا ہے۔ اے حمید کا ماضی سے پیار مگر برحق تھا۔ اردو ادب کی بہترین نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ سعادت حسن منٹو، ممتاز مفتی، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، ن م راشد، احمد فراز، ناصر کاظمی، حفیظ جالندھری، اشفاق احمد، انتظار حسین، مستنصر حسین تارڑ، عبداللہ حسین۔

پاک ٹی ہاؤس وہ مادر صفت مرغی ہے جس نے بے شمار چوزوں کو اپنے پروں تلے آباد رکھا۔ مستنصر حسین تارڑ اس عظیم مشاعرے کے آخری چراغ ہیں جو تقسیمِ ہند، سقوطِ پاکستان، پے در پے مارشل لاؤں، اور اس نوزائیدہ مملکت کی فکری کشمکشوں کے نتیجے میں تخلیق ہونے والے اردو ادب کا شاید آخری اجتماع تھا۔

گلوبلائیزیشن کے زمانے میں لکھنے والے کم ہیں، اور سوچنے والے کم تر۔ اور جو باقی ہیں، وہ سہمے رہتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکروں کے زمانے میں خوش الحان پرندوں کی آوازیں پنجروں میں قید کر دی جاتی ہیں۔ گویا کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔

اے حمید کا دوسرا پیار لاہور تھا۔ لاہور کی ثقافت کو رلتا دیکھ کر انہوں نے مرثیے بھی لکھے۔ اچھا ہوا میٹرو، اورنج لائن اور گرین لائن کے بننے سے پہلے چلے گئے، ورنہ جیتے جیتے مر جاتے۔

ساری زندگی سمن آباد میں آباد رہے۔ سمن آباد ایک مڈل کلاس سوچ کا نمائندہ علاقہ ہوا کرتا تھا۔ مڈل کلاس کی ایک خاص اخلاقیات ہوتی ہیں، زندگی گزارنے کے لیے ایک خاص سوچ۔

جس طرح سبزیوں اور پھلوں کے ذائقے اور تاثیر انہیں سیراب کرنے والے مٹی سے تبدیل ہوتی ہے، اس طرح فنکار بھی اپنے محل وقوع کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اے حمید کا ترقی پسند انقلابی سمن آباد میں جا کر ایک روایتی بورژوا بن گیا تھا۔ زندگی کی کشمکشوں میں گم۔

اے حمید نے بھوکا رہنے کی بجائے کمرشل آرٹ کی بیساکھی سینے سے لگائے رکھی۔ ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی ویژن، وائس آف امیریکا، رسالے، میگزین، ڈائجسٹ، اخباری کالم، ہر میدان میں انہوں نے طبع آزمائی کی اور بہت لکھا۔ کوئی دو سو کے قریب کتابیں لکھیں۔

اے حمید کی تصانیف میں اُردو شعر کی داستان، زرد گلاب، اور چنار جلتے رہے، جھیل اور کنول، آدھی رات کا شہر، جنگل اداس ہے، منزل منزل، کچھ یادیں کچھ آنسو، لنکا سری لنکا، ویران جزیرے، لاہور کی یادیں، دیکھو شہر لاہور، جنگل روتے ہیں، گلستان ادب کی سنہری یادیں، سیاہ پھول، مٹی کی مونا لیزا اور قصہ آخری درویش کا مشہور ہیں۔

ہماری جدید تاریخ میں بہت کم ایسے وسیع الشرب مصنف گزرے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اے حمید کے کمرشل آرٹسٹ ہونے پر تنقید بھی ہوئی اور کہیں کہیں ان کا قلم اس تخلیقی اپچ کو نباہ نہ سکا، جو ان کی پہچان تھی۔ لیکن کیا پیسے کے لیے لکھا ہوا ادب کم تر معیار کا ہوتا ہے؟

کیا زود نویسی عامیت پسندی کی طرف لے جاتی ہے؟ کیا مائیکل اینجلو کے کمیشنڈ کام سیسٹین چیپل، یا رافایل کے مجسمے یا موزارٹ کے سوناٹا کم معیار کے تھے؟

ایسا ہو بھی سکتا ہے، اور نہیں بھی ہو سکتا۔ مگر اس بات پر تنقید کی ہی کیوں جائے؟ کیا ہم ایسی دنیا میں نہیں رہتے جہاں مفت چیز کو کمتر اور مہنگی چیز کو معیاری سمجھا جاتا ہے؟ تو پھر آرٹسٹ اگر مالی فوائد کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرے تو اس میں حرج کیا ہے؟

فن کو کلو اور چھٹانک کے پیمانوں سے نہیں تولا جاسکتا، ایک موتی کی قدر اس کی اپنی چمک سے ماپی جاتی ہے، اس کی چٹان کی گہرائی سے نہیں۔

اے حمید کا کمرشل کام تو شاید ایک نسل بعد کسی کہ یاد بھی نہ رہے مگر ان کی ادبی میراث ان کے افسانے ہیں جن کی چمک دمک رہتی دنیا تک ان کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Ali May 21, 2016 03:15am
Good Article. Still remember reading his story of Amber Naag and Maria. It was a good time.
حسین بادشاہ May 22, 2016 07:17am
درست لکھا۔ انکے ناولوں میں رچی سحر انگیز فضا نشہ آور ہے جسے اسکی لت لگی وہ کام سے گیا۔