'ایٹمی پروگرام جنوبی ایشیامیں امن کا ضامن'

اپ ڈیٹ 28 مئ 2016
فائل فوٹو/ اے ایف پی—۔
فائل فوٹو/ اے ایف پی—۔

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام جنوبی ایشیا میں امن کا ضامن ہے کیونکہ اس سے طاقت کا توازن قائم ہوا جو اس خطے کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنے 18 سال ہوچکے ہیں اور اسی حوالے سے آج ملک بھر میں 'یوم تکبیر' منایا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاک و ہند ایٹمی جنگ، انسانی تہذیب کی موت

ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق 'یوم تکبیر' کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ ایٹمی پروگرام وطن عزیز کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ داخلی اور خارجی خطرات سے ملک کے دفاع کے لیے مکمل طورپر تیاررہنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اب دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے سنگین مسائل سے نبردآزما ہے اور ہم ملک کو غیرمستحکم کرنے کے لیے دشمنوں کے عزائم خاک میں ملارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں پاکستان، ہندوستان سے آگے

یاد رہے کہ 28 مئی 1998 کو ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے اور مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

پاکستان اور ہندوستان دونوں نے ہی پہلی مرتبہ 1998 میں 3،3 ہفتوں کے وقفے سے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کیے تھے۔

اس کے بعد سے پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی اپنی ایٹمی استعداد میں اضافہ کرتے آئے ہیں، جبکہ ہندوستان نے امریکا کے ساتھ ایک جوہری معاہدہ بھی کر رکھا ہے۔

رواں ہفتے ایک اہم امریکی سینیٹر ایڈ مارکی نے خبردار کیا تھا کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں ہندوستان کی شمولیت سے جنوبی ایشیا میں ایک 'نہ ختم ہونے والی' ایٹمی دوڑ کا آغاز ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:’ہندوستان کورعایت،پاکستان کوکیسےروک سکتے ہیں؟‘

این ایس جی ایک کثیر القومی باڈی ہے جو جوہری پھیلاؤ کو کم سے کم کرنے کے سلسلے میں حساس ایٹمی مواد کی برآمدات، دوبارہ منتقلی اور حفاظت وغیرہ کی نگرانی کرتی ہے۔

سینیٹر مارکی نے امریکی عہدیداران کو یاد دلایا کہ اوباما انتظامیہ کی ہندوستان کو این ایس جی میں شمولیت میں مدد دینا خطرناک اور غیر ضروری ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہندوستان کو دی جانے والی ان مراعات سے پاکستان بھی اپنی جوہری صلاحیت میں اضافہ کرے گا، جو ایک بہت خطرناک رجحان ہے، خاص طور پر اُس وقت جبکہ ہم جوہری ہتھیاروں کے غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں میں جانے کے حوالے سے کافی فکرمند ہیں۔'

مزید پڑھیں : جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ۔ ایٹمی جنگ کے خدشات میں اضافہ

سینیٹر مارکی کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ امریکا، ہندوستان کو رعایت دیتا آیا ہے، جن میں 1980 میں یورینئیم کی فروخت بھی شامل ہے جبکہ 2008 میں مکمل شرائط پوری کیے بغیر ہی امریکا نے ہندوستان کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 2008 میں جب امریکا نے ہندوستان کو رعایت دی تھی تو اُس وقت بھی پاکستان نے خبردار کیا تھا کہ اس معاہدے سے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔

انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ہم ہندوستان کو رعایت دے رہے ہیں تو ہم پاکستان کو اپنی مرضی کرنے سے کس طرح سے روک سکتے ہیں؟

واضح رہے کہ امریکی انتظامیہ 2010 سے این ایس جی میں ہندوستان کی شمولیت کی کوششوں کی حمایت کرتی آئی ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں