واشنگٹن: ایک مطالعاتی رپورٹ میں منگل کے روز بتایا گیا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ کے نتیجے میں عالمی قحط سالی پیدا ہوگی جس سے دو ارب افراد موت کے منہ میں چلے جائیں گے اور انسانی تہذیب کا خاتمہ ہو جائے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایٹمی ہتھیاروں کا محدود استعمال بھی ماحول کو تباہ کردے گا اور فصلوں سے سجے کھیت ویران ہو جائیں گے جبکہ عالمی فوڈ مارکیٹ بھی ان اثرات سے اضطراب کا شکار ہو جائے گی۔

نوبل امن انعام یافتہ بین الاقوامی فزیشن برائے امتناع ایٹمی جنگ اور فزیشن برائے معاشرتی ذمہ داری نے ایک ابتدائی نظرثانی سٹڈی اپریل 2012ء جاری کی جس کے مطابق ایٹمی وباء ایک ارب سے زائد افراد کو ہلاک کرسکتی ہے۔

دوسرے ایڈیشن میں گروپس کہتا ہے کہ اس ہولناکی کا سب سے زیادہ اثر چین پر پڑے گا اور اندازہ ظاہر کیا کہ دنیا کے کثیر آبادی والے ملک خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرے گا۔

ترقی یافتہ دنیا میں ایک ارب افراد کو موت یقیناً ایک قدرتی آفت ہوگی جو انسانی تاریخ کو غیر متوازن کردے گی ۔

رپورٹ کے منصف اراہیلفنڈ نے کہا 'اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو امکان ہے کہ چین کے 1.3ارب دیگر لوگ رسک پر ہوں گے ، ہم کچھ نہ کچھ تو کررہے ہیں جو انسانی تہذیب کو یکسر ختم کردے گی'۔

ہیلفنڈ کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ انڈیا اور پاکستان کی صورتحال دیکھتے ہوئے تیار کی گئی، ایٹمی صلاحیت کی حامی دونوں ریاستوں کے مابین طویل کشیدگی پائی جاتی ہے جو تین بڑی جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔

لیکن ہیلفنڈ کہتے ہیں کہ کرہ ارض اسی قسم کے الہامی تصادم کی محدود ایٹمی جنگ سے بھی توقع رکھ سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جدید ایٹمی ہتھیار 1945ء میں امریکا کی جانب سے پیروشیما اور ناگاساکی پر استعمال ہونے والے بموں سے بہت زیادہ طاقت ور ہیں۔

حملے میں دو لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی ایشیائی ایٹمی جنگ سے سیاہ کاربن ایروسول کے ذرات فضاء میں شامل ہوجائیں گے جو امریکی مکئی اور سویابین کی پیداوار کم کردینگے ۔

انہوں نے کہاکہ ایٹمی جنگ کے پہلے سال چین کی گندم پیداوار 50 فیصد گر جائے گی اور ایک دہائی عرصے میں بنیادی ہدف سے 31فیصد نیچے رہے گی ۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایٹمی جنگ کے حقیقی اثرات کا اندازہ لگانا ناممکن ہے تاہم اس حوالے سے اندازے انتہائی حولناک ہیں۔

ان کہنا ہے کہ ایٹمی قحط سالی کے نظریے کا ایٹمی طاقتوں کی پالیسی ساز گہرائی سے مشاہدہ نہیں کررہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کو ہی ختم کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جنگ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہو گی جس کے خلاف تیاری ممکن نہیں اور ہمیں اسے ضرور روکنا چاہیے ۔

باراک اوباما نے 2009ء میں اس بات پر زوردیا تھا کہ ایٹمی ہتھیار ختم کردیئے جائیں لیکن کہا کہ جب تک دوسروں کے پاس ہوں گے ریاست ہائے متحدہ بھی رکھے گی۔

نو ممالک کا خیال ہے کہ ایٹمی ہتھیار رکھے جائیں جبکہ دنیا میں سے سے زیادہ ہتھیار امریکہ اور روس کے پاس موجود ہیں ۔

اس حوالے سے 2010ء میں ایک ڈاکو مینٹری 'کاؤنٹ ڈاؤن ٹو زیرو' بنائی گئی تھی جس میں تمام عالمی رہنماؤں ایٹمی ریاستوں کے رہنماؤں نے ایٹمی ہتھیاروں کے غیر مشروط اور مکمل خاتمے پر اتفاق کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں