اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو یہ یاد دہانی کا سلسلہ جاری ہے کہ قومی معاملات پر فیصلہ سازی کی قوت کھو دینے سے جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے گزشتہ دو روز، حکومت پر نشتر کے تیر چلائے جانے کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے، قومی معاملات پر پیچھے ہٹ جانے کے باعث حکومت پر تنقید شروع کردی ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک موقع پر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی محمد نے اپنی مختصر لیکن جذباتی تقریر کے دوران کہا کہ ’قائد اعظم محمد علی جناح کوئی فوجی نہیں بلکہ سیاستدان تھے، اور یہ ان کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ کسی فوجی نے نہیں بلکہ سیاستدان نے بنایا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم آرمی کا احترام کرتے ہیں، لیکن تمام پالیسی فیصلے اس ایوان میں ہونے چاہیئں۔‘

قومی اسمبلی کے منتخب نمائندوں کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے علی محمد کا کہنا تھا کہ قانون ساز اس ایوان میں اپنے حلقے کے عوام کی امنگوں کے ترجمان ہوتے ہیں اور اسی حلقے کے عوام، پارلیمنٹ اور میڈیا سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’کیا آپ ایسے سوال کسی جنرل، جج یا کسی بیوروکریٹ سے پوچھ سکتے ہیں؟‘

انہوں نے غیر جمہوری قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاستدانوں کو گالی اور ان کی تضحیک کا سلسلہ بند کیا جائے، ہم کوئی چور نہیں ہیں۔‘

علی محمد نے حکومتی بینچوں پر بیٹھے اراکین کو بھی سوال کے انداز میں پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ پارلیمنٹ ختم ہوجاتی ہے، تو آپ لوگ کہاں جائیں گے۔‘

پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نے اجلاس کے دوران افغان صدر اشرف غنی کی، ہندوستان کے ساتھ پینگیں بڑھانے کا معاملہ بھی اٹھایا۔

انہوں نے اشرف غنی کی حالیہ ٹوئٹ، جس میں انہوں نے افغانستان کو ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا دوسرا گھر قرار دیا تھا، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اشرف غنی صاحب، کیا آپ بھول گئے ہیں کہ آپ کا اتحادی کون ہے؟ جب آپ آزادی کے لئے روس سے لڑ رہے تھے تو نریندر مودی کے ملک کی حمایت روس کی جانب تھیں، جبکہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے تھے۔‘

پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے بھی حکومت کی ’غلط‘ ترجیحات کا معاملےہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت کے جو اہم اراکین شاذ و نادر ہی پارلیمنٹ میں نظر آتے ہیں، وہ جی ایچ کیو سے موصول ہونے والے دعوت نامے پر فوراً ہی وہاں پہنچ گئے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس حکومت کی بھی فوری سرجری کی ضرورت ہے، جنرل راحیل شریف کو امریکی حکام کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی۔‘

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کی وضاحت کرے کہ آیا ملک کا کوئی باقاعدہ وزیر خارجہ ہے بھی یا نہیں۔

’آف شور‘ بجٹ

نفیسہ شاہ نے حالیہ پیش کیے گئے بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تاریخی بجٹ ہے، ایسا بجٹ جس کی ملکی تاریخ میں پہلی بار ویڈیو لنک کے ذریعے منظوری دی گئی، اور چونکہ وزیر اعظم اس وقت لندن میں تھے جب انہوں نے بجٹ کی منظوری دی، اس لیے یہ ملک کا پہلا آف شور بجٹ بھی تھا۔‘

اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے بھی ہوتے رہے۔

یہ خبر 12 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Jun 12, 2016 11:51pm
علی محمد نے درست بات کی ھے وقت اگیا ھے کہ تمام فیصلے خواہ وہ خارجہ ھوں یا داخلی پارلیمان میں ھونے چاہئے علی محمد کی تنقید درست ھے لیکن انکو معلوم ھونا چاہئے کہ پاکستان میں تمام اختیارات منتخب حکومت کے ساتھ نہیں ھوتے اگر ھوتے تو اج پاکستان کا یہ حال نہ ھوتا ھے پاکستان کے بڑے بڑے فیصلے پنڈی میں ھوتے ھیں جو اس ملک کی بدقسمتی ھے اور ھمارے پارلیمنٹ کی کمزوری ھے اج پارلیمنٹ تہیہ کرلیں کہ تمام فیصلے ھم خود کرینگے اور ائین اور قانون کے مطابق کرینگے تو سارا ملک آپکے پیچھے کھڑا ھوگا اداروں سے مشورہ لیا جاسکتا ھے اور انکو مشورہ دینا بھی چاہئے لیکن اخری فیصلہ پارلیمنٹ اور منتخب کریگی اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ ملک ایسا ہی رہیگا