اسلام آباد: سماجی کارکن اور ماہر قانون عاصمہ جہانگیر نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے میڈیا سیل کو مانیٹر کیا جائے۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے وزیر اطلاعات ونشریات کی جانب سے عدالتی حکم عدولی کے خلاف حامد میر، چیئرمین پیمرا اور دیگر کی درخواست پر کیس کی سماعت کی۔

ایڈوکیٹ عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ ہم حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے آئے ہیں لیکن پاک فوج کے میڈیا سیل کے بارے میں بھی بات ہونی چاہیے۔۔

انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے لیے ہمیشہ بجٹ کا بہت بڑا حصہ مختص کیا جاتا ہے لیکن اب یہ دفاعی بجٹ ملک میں سیاست دانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آئی ایس پی آر سوشل میڈیا پر بہت سرگرم ہے اور آئی سی پی آر کے ٹوئٹس سوشل میڈیا میں اہم موضوع بحث بن گئے جو بہت سے لوگوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نوٹس لے کہ آئی ایس پی آر کس ضابطہ اخلاق کے تحت میڈیا سیل چلا رہا ہے۔

جس پر عدالت نےعاصمہ جہانگیر کو آئی ایس پی آر میڈیا سیل کے حوالے سے پیٹشن دائر کرنے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ضرب عضب: '3500 دہشت گرد اور 490 اہلکار ہلاک'

صحافی اسد کھرل کی وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم صفدر کی جانب سے حکومتی میڈیا سیل سنبھالنے کے حوالے سے پیٹشن دائر کرنے کے ردعمل میں ایڈوکیٹ عاصمہ جہانگیر نے عدالت میں آئی ایس پی آر کے میڈیا سیل کی نگرانی کرنے کی استدعا کی۔

عدالت کو درخواست گزار نے بتایا گیا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اشتہارات کے لیے اب تک 9 ارب روپے خرچ کیے چکے ہیں، حکومتی میڈیا سیل کو چلانے کے لیے 38 ملازمین کو پرکشش تنخواہ دی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان اشتہارت کو حکومتی اعلیٰ شخصیات کے کارناموں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اشتہارات میں ذاتی تشہیرسے عدالت احکامات کی ورزی کی جارہی ہے۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے پبلسٹی فنڈز کو ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرنے پر حکومت سے جواب طلب کرلیا۔

عدالت نے کہا کہ پیمرا ( پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) غیر جانب دار نظر نہیں آتا، غیر جانب داری کے بغیر پمیرا کی تشکیل نامکمل ہے۔

عدالت نے پیمرا کو مکمل طور پر فعال کرنے اور پبلک سروس میسجز کے لیے الیکٹرانک میڈیا میں 10 فیصد کوٹہ مختص کرنے کا حکم دیا۔

چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے عدالت کو ایک ہفتے کے اندر عدالتی حکم کی تعمیل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

ابصار عالم کا کہنا تھا کہ ان قوانین کا مقصد ٹاک شوز میں غیر مہذب اور غیر شائشہ زبان استعمال کرنے سے روکنا ہے لیکن جب سے پیمرا کے اختیارات محدود کیے گئے ہیں تب سے وہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ قانون کے مطابق پیمرا صرف میڈیا چینلز کے مالکان کے خلاف صرف ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کرسکتا ہے لیکن جب پابندی عائد کرنے کی بات آتی ہے تو مالکان عدالت عظمیٰ سے حکم امنتاعی لے لیتے ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ ان نجی چینلزکے مالکان کے خلاف کی گئی کارروائی کی رپورٹ عدالت میں پیش کریں گے۔

سپریم کورٹ کے پریس ایسوسی ایشن کے سابق صدر غلام نبی یوسف زئی نے کہا کہ کوئی بھی میڈیا کے ضابطہ اخلاق کی پاسداری کیسے کرسکتا ہے جب اسٹیک ہولڈرز اور صحافیوں کی سیکیورٹی انتظامات، ہیلتھ کیئر اور دیگر ضروریات کو نظر انداز کیے جاتے ہوں۔

سینئر وکیل اعتزاز احسن نے صحافیوں کے مسائل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے مسائل حل کئے جائیں اور سول سوسائٹی سے ایسی کمیٹٰی بنائی جائے جو میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب دے سکے۔


یہ خبر 16 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Muhammad Ahsan Bhatti Jun 16, 2016 01:48pm
what's problem with Asma Jahangeer .As a Pakistani we should encourage to our army for his tremendous Performance.
Israr Jun 16, 2016 11:37pm
یہ ملک کی تاریخ میں بہت اھم مقدمہ ھے پیمرا اور دیگر اداروں کو جس کا تعلق میڈیا سے ھو کیلئے ایک راہ اور لائن متعین کرنا ضروری ھوگیا ھے امید ھے کہ اعلی عدالت اسکا کوئی اچھا حل ڈھونڈ نکالی گی ٹی وی شو اور دیگر امور(اشتہارات) وغیرہ کیلئے ایک ضابطہ اخلاق اور قانون بنانا پڑیگا پیمرا کو بھی ازاد خودمختار ادارہ بنانا چاہئے جو ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد یقینی بنائیں عاصمہ جھانگیر نے جو نقطہ اٹھایا ھے اس پر بھی عدالت اپنی رائے یا فیصلہ دی سکتی ھے حکومت یا وزیراعظم اگر فنڈ آئینی طریقہ سے استعمال کررہا ھے تو یہ حکومت کا حق ھے اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی البتہ اسکو محدود کیا جاسکتا ھے