کشمیر میں کرفیو برقرار، ہلاکتیں 34 ہوگئیں

14 جولائ 2016
برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے —فوٹو / رائٹرز
برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے —فوٹو / رائٹرز

سری نگر: حزب المجاہدین کے کمانڈر برہانی وانی کی ہندوستانی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے مسلسل مظاہروں اور ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے جبکہ فورسز کی فائرنگ سے اب تک 34 بے گناہ کشمیری ہلاک اور 1500 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق حریت رہنمائوں نے ہڑتال میں جمعے تک توسیع کردی ہے اور نماز جمعہ کے بعد بڑے مظاہرے کا امکان ہے جب کہ گزشتہ 6 روز سے مسلسل کرفیو بھی نافذ ہے۔

مزید پڑھیں:برہان وانی کی ہلاکت: 'محمود غزنوی' نئے حریت پسند کمانڈر مقرر

ہندوستان کے پاس کشمیریوں کے احتجاج سے نمٹنے کیلئے طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی اور طریقہ نظر نہیں آتا۔

حکام کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے باوجود کشمیر میں جنگجوئوں کے خلاف کارروائی جاری رکھی جائے گی اور شورش زدہ علاقوں میں طاقت کا استعمال بڑھانے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد کشمیریوں کو اپنائیت کا احساس دلانے میں ناکام رہی ہے، گزشتہ برس وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کیلئے 800 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا بھی اعلان کیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیری عوام آپے سے باہر ہوگئے اور ہندوستانی فورسز کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:’دنیا کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کا احترام کرے‘

سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 34 افراد کی ہلاکت اور 1500 سے زائد کا زخمی ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ طاقت کا استعمال مسئلے کا موثر حل نہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکومت کو کشمیری عوام کو اپنائیت اور تحفظ کا احساس دلانے کیلئے کوئی اور راستہ اختیار کرنے پڑے گا۔

ہندوستانی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل سید عطا حسنین کا کہنا ہے کہ دہلی میں ہر کوئی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ کشمیر میں مسائل کا سامنا ہے۔

عطا حسنین 2010 سے 2012 کے دوران کشمیر میں ہندوستانی فوج کے کور کمانڈر رہے اور اپنے کیریئر میں وہ 7 بار کشمیر میں تعینات رہ چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کسی کے پاس بھی کشمیری عوام سے روابط بہتر بنانے کے حوالے سے متعلق کوئی تجویز نہیں۔

مزید پڑھیں:کشمیریوں کے قتل پر بان کی مون کی تشویش

کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی حکومت قائم ہے اور نریندر مودی نے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے مذاکرات کے حوالے سے سخت موقف اختیار کررکھا ہے۔

ماضی میں جب حریت رہنما نئی دہلی جاتے تو وہاں پاکستانی حکام سے بھی ملاقات کرتے تھے لیکن اب مودی کی حکومت حریت رہنمائوں کی پاکستانی حکام سے ملاقات کو داخلی معاملات میں مداخلت کہتی ہے۔

ہندوستان سے نفرت کیوں؟

حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ علیحدگی پسند حریت رہنما خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، ہندوستانی حکومت طاقت کا استعمال کرکے معاملے کو حل نہیں کرسکتی۔

کشمیر کے نائب وزیر اعلیٰ نرمل سنگھ کہتے ہیں کہ حکومت قانونی فریم ورک کے مطابق حریت رہنمائوں سے بات کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن وہ تیار نہیں اور ہر بار معاملہ بگاڑ دیتے ہیں۔

نئی دہلی میں موجود بی جے پی کے ایک اور سینئر رہنما نے کہا کہ ہندوستان حریت رہنمائوں سے مذاکرات کیلئے تیار ہے لیکن جب ان کا پاکستان سے بات کرنا ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کشمیر ہلاکتیں: 'پاکستان، ہندوستان سے سفارتی تعلقات معطل کردے '

انہوں نے کہا کہ حکومت شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گی اور ہمیں امید ہے کہ وقت کے ساتھ کشمیریوں کو احساس ہوگا کہ ان کا غصہ درست نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ چاہے بات روزگار کی ہو، تعلیم، صحت یا اور کسی سہولت کی، کشمیریوں کو وہ تمام مواقع اور سہولتیں دستیاب ہیں جو ایک عام ہندوستانی کو ہیں تو پھر 'ہندوستان کے خلاف غصہ کیوں'؟

تشدد کی لہر برقرار

برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مزید درجنوں نوجوان ہلاک ہوئے، اس اقدام سے کشمیریوں کا غصہ تو کم ہوتا نظر نہیں آیا البتہ ان کی ہندوستان سے نفرت میں ضرور اضافہ ہوا ہوگا اور مزید نوجوان اب برہان وانی کے نقش قدم پر چل نکلیں گے۔

برہان وانی کے والد مظفر وانی نے گزشتہ برس اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ہندوستانی فورسز کی جانب سے تشدد کے بعد برہان وانی نے ہتھیار اٹھائے تھے۔

برہان کے بھائی کو بھی گزشتہ برس ہندوستانی فوج نے ہلاک کردیا تھا حالانکہ اس کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

دوسری جانب ڈاکٹرز ایسوسی ایشن آف کشمیر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے اسپتال پر بھی آنسو گیس کی شیلنگ کی اور ایمبولینسوں کو نقصان پہنچایا اور عملے کو زد و کوب کیا۔

اس حوالے سے جب بی جے پی کے رہنما نرمل سنگھ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات افسوس ناک ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔


تبصرے (0) بند ہیں