سنا ہے ہندوستان کے ساتھ 1965ء میں ہونے والی جنگ میں ملک و قوم کی حفاظت کے جذبے سے سرشار پاکستانی فوجی اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے۔

65ء کی جنگ کو ٹی وی یا تصاویر میں دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا تاہم اکثر اس منظر کو اپنے تخیلات میں دیکھنے کی کوشش کی اور خود کو غیر محب وطن پایا کیوں کہ ٹینکوں کے آگے لیٹنا تو دور اس کا تصور بھی نہیں کرسکا۔

لیکن حال ہی میں ترکی میں ہونے والی بغاوت کی کوشش کے دوران ایک شخص کے ٹینک کے آگے لیٹنے کی تصویر دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ 65ء کی جنگ میں پاک فوج کا جذبہ کیا ہوگا۔

ٹینک کے سامنے کھڑے ہونے والے شخص کو اب دنیا ’ترک ٹینک مین‘ کے نام سے جانتی ہے — فوٹو/بشکریہ رائٹرز
ٹینک کے سامنے کھڑے ہونے والے شخص کو اب دنیا ’ترک ٹینک مین‘ کے نام سے جانتی ہے — فوٹو/بشکریہ رائٹرز

فوجیوں کا ملک کے دفاع میں جان دینا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ایک عام شہری کا جمہوریت کو بچانے کیلئے ٹینک کے سامنے لیٹ جانا سمجھ میں نہیں آتا۔

ترکی میں فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کیلئے لوگ اس طرح ٹینکوں کے پیچھے بھاگ کر اس پر سوار ہورہے تھے جیسے ہمارے ہاں لوگ بس پر سوار ہونے کیلئے بھاگتے ہیں۔

شاید ترک اور پاکستانی عوام کے درمیان یہ فرق ہی ہے جو دونوں ممالک کے سیاسی حکمرانوں کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

ترکی کے باغی فوجی جب ٹینکوں، گن شپ ہیلی کاپٹرز اور جنگی طیارے لے کر اقتدار پر قبضے کیلئے نکلے ہوں گے تو انہوں نے مد مقابل آنے والے وفادار فوجیوں اور سیکیورٹی اہلکاروں پر گولیاں برسانے کا سوچا ہوگا لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوگا کہ ان کا سامنا ایسے شہریوں سے ہوگا جو بظاہر تو نہتے تھے لیکن اپنے ملک اور لیڈر سے محبت کے جذبے سے لیس تھے۔

ترکی میں بغاوت کے اس پورے معاملے میں جس شخص نے ٹینک کے آگے لیٹ کر پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی اس کا نام 'متین دوغان' ہے اور اب دنیا اسے ' ترک ٹینک مین' کے نام سے جانتی ہے۔

ٹینک کو روکنے کے لیے اس کے سامنے لیٹ جانا کسی جرت سے کم نہیں تھا — فوٹو / بشکریہ رائٹرز
ٹینک کو روکنے کے لیے اس کے سامنے لیٹ جانا کسی جرت سے کم نہیں تھا — فوٹو / بشکریہ رائٹرز

جب وہ ٹی وی پر بغاوت کے حوالے سے چلنے والی خبروں کو دیکھ کر اتاترک ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہوئے ہوں گے تو انہیں اندازہ نہیں ہوگا کہ وہ آمریت کے خلاف جدوجہد اور جمہوریت کی علامت بن کر ابھریں گے۔

وہ تو گھر سے یہی سوچ کر نکلے تھے کہ باغیوں کو روکنا ہے چاہے اس میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

ترکی کی اناتولو نیوز ایجنسی نے متین دوغان کا انٹرویو کیا، اس دوران متین نے بتایا کہ جب انہیں بغاوت کی کوشش کی خبر ملی تو وہ اپنے گھر میں تھے، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ تمہارے بیوی بچے ہیں تم گھر پر رہو، میں تو چلا۔

ترکی میں ٹینک کے آگے لیٹنے والے متین دوغان —فوٹو بشکریہ swns.com
ترکی میں ٹینک کے آگے لیٹنے والے متین دوغان —فوٹو بشکریہ swns.com

40 سالہ متین خود بھی فوج میں رہ چکے ہیں، وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ 'میں نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا، مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ صدر کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے لیکن وہ میرے اور میرے ملک کے صدر ہیں اور میں کسی کو طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے نہیں دے سکتا‘۔

متین کے گھر سے اتاترک ایئرپورٹ کا فاصلہ 6 کلومیٹر تھا اور وہ پیدل ہی وہاں تک جانے کیلئے تیار تھے لیکن خوش قسمتی سے انہیں ایک موٹر سائیکل سوار مل گیا جس سے انہوں نے ایئرپورٹ تک لفٹ لی۔

متین بتاتے ہیں کہ جب وہ ایئرپورٹ پہنچے تو انہوں نے فوجیوں اور تین ٹینکوں کو ایئرپورٹ کی جانب آتے دیکھا، متین نے بھاگتے ہوئے فوجیوں کے حصار کو توڑا اور ایک ٹینک کے آگے کھڑے ہوگئے۔

متین نے بتایا کہ میں نے چیخنا شروع کیا 'میں اس قوم کا محافظ ہوں، تم کس کے محافظ ہو؟'

انہوں نے مزید کہا کہ فوجی اہلکار کہہ رہے تھے کہ سامنے سے ہٹ جاؤ ورنہ ہم گولی چلادیں گے اور اس کے بعد ٹینک آہستہ آہستہ آگے آنے لگا۔

اس وقت متین نے سوچا کہ اگر انہوں نے اس ٹینک کو آگے جانے دیا تو وہ بھی اس غداری میں برابر کے شریک ہوں گے لہٰذا وہ فوراً ٹینک کے آگے لیٹ گئے، آنکھیں بند کرکے موت کا انتظار کرنے لگے، وہ سوچ رہے تھے کہ شائد ان کی موت کے بعد یہ ٹینکس واپس چلے جائیں۔

ٹینک کے سامنے لیٹے ہوئے متین دوغان کی تصویر نے دنیا بھر میں جمہوریت کے حامیوں کے جذبات کو جلا بخشی ہے، دوغان کو زندہ بچ جانے کا یقین نہیں تھا لیکن اب وہ خوش ہیں کہ جمہوریت کو بچانے کی جدوجہد میں انہوں نے بھی اپنے حصے کا کردار ادا کیا۔

متین دوغان — فوٹو: بشکریہ اناتو
متین دوغان — فوٹو: بشکریہ اناتو

متین نے بتایا کہ جب وہ ٹینک کے آگے سے ہٹنے سے مسلسل انکار کرتے رہے تو ٹینک کے اوپر موجود ایک فوجی اہلکار نے کہا 'خدا کیلئے سامنے سے ہٹ جائو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تم سامنے سے ہٹ جاؤ گے تو ہم واپس چلے جائیں گے‘۔

متین کہتے ہیں کہ انہوں نے باغی فوجی کو آپشن دیا کہ یا تو وہ واپس چلے جائیں یا پھر ان کے اوپر ٹینک چڑھادیں لیکن وہ سامنے سے نہیں ہٹیں گے۔

بالآخر ٹینک واپس جانے پر مجبور ہوگئے اور جیسے ہی متین نے انہیں واپس جانے کیلئے راستہ دیا وہاں موجود دیگر لوگوں نے بھی باغیوں پر چڑھائی کردی، لوگ ٹینکوں پر پتھر اور بوتلیں پھینک رہے تھے۔

اس کے بعد ترک صدر طیب اردگان کی جانب سے عوام سے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا اور ترک عوام نے بغاوت کو ناکام بناکر ہی دم لیا۔

متین دوغان خوش قسمت ہیں کہ وہ زندہ ہیں لیکن جمہوریت کو بچانے کی اس جدوجہد میں تقریباً 290 افراد نے اپنی جان کی قربانی دی۔

زندہ قوموں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، ترک عوام نے یہ ثابت کردیا کہ میدان جنگ میں کامیابی کا دارومدار جنگی ساز و سامان پر نہیں بلکہ اس جنگ میں شامل سپاہیوں کے جذبے پر ہوتا ہے، جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جرات و بہادری سے جیتی جاتی ہیں۔

متین دوغان نے تو ترکی میں بغاوت کو ناکام بنانے والوں کی فہرست میں 'ٹینک مین' کا خطاب حاصل کرکے نمایاں مقام پا لیا۔ لیکن ایسے کتنے ہی اور لوگ ہوں گے جنہوں نے بندوق کے سامنے اپنے سینے پیش کیے ہوں گے، گن شپ ہیلی کاپٹرز کا نشانہ بنے ہوں گے لیکن ان کا نام کوئی نہیں جانتا تاہم ترکی کی تاریخ میں ان کی قربانیوں کو ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

ترکی میں ہی ایک اور نامعلوم شخص بھی ہے جو بغاوت کی حالیہ کوشش کے دوران ایک نہیں بلکہ دو تیز رفتار ٹینکوں کے آگے آیا اور خوش قسمتی سے زندہ بچنے میں کامیاب رہا، اس شخص کی جرات بھی قابل دید ہے۔

ماضی میں ہمیں چین میں بھی ایسی ایک مثال دیکھنے کو ملتی ہے جب 1989 میں چینی عوام نے جمہوریت کے حق میں مظاہرے شروع کردیئے تھے اور فوج اسے روکنے کیلئے سڑکوں پر آگئی تھی۔

اس دوران ایک نامعلوم شخص تیانامن اسکوائر میں چار فوجی ٹینکوں کے قافلے کے آگے کھڑا ہوگیا تھا، اس واقعے کو 25 برس گزر جانے کے بعد بھی اس شخص کی شناخت نہیں ہوسکی لیکن آج بھی لوگ اسے 'ٹینک مین' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔


تبصرے (0) بند ہیں