کراچی : قائم علی شاہ سندھ کے واحد وزیر اعلیٰ جو گزشتہ دور حکومت یعنی 2008 سے 2013 تک اپنی 5 سالہ مدت مکمل کر چکے ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت کی جانب سے ان کو عہدے سے برطرف کرنے کے فیصلے کے بعد اب وہ دوسری دفعہ یہ ریکارڈ قائم کرنے سے محروم رہیں گے۔

قائم علی شاہ واحد شخصیت ہیں جن کو مسلسل دوسری بار صوبے کا چیف ایگزیکٹیو نامزد کیا گی جب کہ مجموعی طور پر انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کے تین ادوار کا ریکارڈ بھی برابر کیا۔

قائم علی شاہ پہلی مرتبہ دسمبر 1988 میں سندھ کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تاہم انہیں فروری 1990 میں عہدے سے ہٹا کر پیپلز پارٹی نے آفتاب شعبان میرانی کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ قائم علی شاہ کے تینوں ادوار میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال اہم مسئلہ رہا اور یہ دوسری مرتبہ ہے کہ انہیں عہدے سے ہٹایا جا رہا ہے۔

سید قائم علی شاہ کا تعلق سندھ کے ضلع خیرپور سے ہے اور وہ اس شہر کے دوسرے سیاستدان ہیں جو وزیراعلیٰ بنے۔ خیرپور سے ہی تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سید غوث علی شاہ بھی وزیراعلیٰ سندھ رہ چکے ہیں جنہیں قائم علی شاہ کا اچھا دوست اور سیاسی مخالف سمجھا جاتا ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق قائم علی شاہ رواں سال 13 ستمبر کو 83 برس کے ہوجائیں گے تاہم ان کے کئی قریبی دوست اور احباب کا کہنا ہے کہ وہ بہت پہلے ہی یہ سنگ میل عبور کرچکے ہیں۔

قائم علی شاہ خیر پور کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے اور وہیں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے کراچی میں سندھ مسلم لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد خیرپور میں وکالت کی پریکٹس شروع کی۔

وکالت کے دوران ان کی غوث علی شاہ سے دوستی ہوئی، اس وقت دونوں میں سے یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ مستقبل میں اہم سیاست دان اور سیاسی حریف بھی بنے گے۔

دونوں شخصیات نے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا جہاں پیر پگارا اور شاہ مردان شاہ پہلے ہی سے ان کی رہنمائی کرنے کے لیے موجود تھے۔

قائم علی شاہ نے فوجی حکمران ایوب خان کے دور میں دو بار بیسک ڈیموکریکٹس (بی ڈی ممبر) کا الیکشن لڑا اور خوش قسمتی سے دوسری مرتبہ ممبر منتخب ہوئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے قیام کے تقریبا ایک سال قبل انہوں نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور پاکستان مسلم لیگ کو چھوڑ کر پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔

قائم علی شاہ کو پہلا ہدف نوجوان کو متحرک کرنے کا ملا، انہوں نے 1970 کے عام انتخابات میں خیرپور سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی اور بعدازاں وہ صنعتوں کے وفاقی وزیر بن گئے۔

1977 کے عام انتخابات میں بھی وہ اسی نشست پر کامیاب ہوئے اور جنرل ضیاء الحق کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد بھی اپنی پارٹی سے وفادار رہے۔

جہاں ناقدین نے قائم علی شاہ کی پارٹی کے ساتھ وفاداری کو سراہا وہیں کچھ لوگوں نے ان پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ 1996 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وہ اس وقت کے صدر فاروق لغاری سے ملے، تاہم یہ الزامات ایسے ہیں جن کی آج تک تصدیق نہیں ہو سکی۔

1989 میں یہ افواہیں بھی گردش میں رہیں کہ قائم علی شاہ کو اپنے پہلے دور اقتدار میں پارٹی کے کچھ نوجوانوں کی بدسلوکی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

قائم علی شاہ کی پہلی شکست

قائم علی شاہ کو 1997 انتخابات میں پہلی مرتبہ سید غوث علی شاہ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جنہیں وہ اس سے قبل مسلسل تین مرتبہ شکت دے چکے تھے۔ اس کے بعد پارٹی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے قائم علی شاہ کو پارٹی انتخابات نثار کھوڑو کے ہاتھوں سندھ کی صدارت سے بھی محروم ہونا پڑا جو کہ انہیں 2002 میں واپس ملی۔

1997 میں وہ پارٹی ٹکٹ پر ایوان بالا یعنی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔

قائم علی شاہ کبھی سیاسی قیدی نہیں رہے۔ 1983 میں انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی کی مہم چلائی تاہم وہ پارٹی پالیسی کے تحت روپوش رہے۔ پی پی پی کی قیادت نے کئی رہنماؤں کو جیل کے باہر روپوش رہ کر کارکنوں کی رہنمائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

وہ 1988 الیکشن کے بعد وہ پہلی بار سندھ کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1990 کے انتخابات میں وہ ایک مرتبہ پھر سے کامیابی حاصل کرکے صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف بن گئے۔

قائم علی شاہ کو آسانی سے دباؤ میں آنے اور خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا جبکہ کئی لوگ شائشتہ مزاج اور نرم گو ہونے کی وجہ سے ان کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو اپنے تینوں ادوار میں اس قسم کے الزامات کا سامنا رہا۔

قائم علی شاہ اہنے دور نوجوانی میں والی بال کے کھلاڑی اور سینیما جانے کے شوقین تھے اور اکثر وہ خیر پور ٹھیٹر میں پاکستانی اور ہندوستانی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔

قائم علی شاہ نے تین شادیاں کیں جن میں سے ان کی دو بیویاں انتقال کرگئیں۔ ان کے 4 بیٹے اور 7 بیٹیاں ہیں جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور زیادہ تر گورنمنٹ سروس سے منسلک ہیں۔

یہ خبر 25 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں