پاکستان کرکٹ ٹیم -- اے ایف پی فائل فوٹو
پاکستان کرکٹ ٹیم -- اے ایف پی فائل فوٹو

"نیشنل کرکٹ ٹیم کے نام پر ہم نے جن قابل مگر بگڑے ہوے لڑکوں کو پروان چڑھایا ہے انہیں چیمپئن ٹرافی میں شکست کے بعد جھاڑ پڑنے والی ہے"، اس سال کا ادھورا ترین بیان ہوگا-

ہماری طرف سے ان سب کو ممکنہ طور پر بنا کسی رعایت کے، برطرف کر دیا جانا چاہیے-

یہ فقط اس ٹورنامنٹ کی بات نہیں ہے، جو صرف ایک محرک تھا، نا ہی یہ ٹیم پاکستان کے بارے میں ہے جو کہ ایک عرصے سے بیمار چلی آرہی ہے- یہ پاکستان میں کرکٹ کی دفتری حکومت کے بارے میں ہے-

ہم نے ایک ایسی رسوا تنظیم تشکیل دی ہے، جس کے سربراہ کا تقرر سیاسی بنیاد پر کیا گیا اور جس نے وہاں اپنے ہر طرح کے ساتھیوں اور خدمات گاروں کو بھر لیا- اس خستہ حال انتظامیہ نے ہمیں کرکٹ میچ سے زیادہ اسکینڈل دیے ہیں، اور پیشہ ور کرکٹرز اور متاثرکن کھلاڑیوں سے زیادہ، بدمعاش، نشئی، کام چور اور جواری دیے ہیں-

ان سب گھر واپس بھیج دینا، نا ہی ناانصافی ہوگی اور نا ہی کسی کو اس پر کوئی حیرت ہو گی-

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انکی جگہ ہم کسے لائیں گے؟

تقریباً 200 ملین کی آبادی والے اس ملک میں ہنرمندوں کی بہتات ہے- کھیل کے میدان میں بسا اوقات فتح اور قابلیت کے مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ نظام میں موجود بیشمار رکاوٹوں کے باوجود لائق کھلاڑی سامنے آ ہی جاتے ہیں-

وہ لوگ جن کی ذمہ داری ان جواہر کی تلاش اور گرومنگ کرنا ہے، انہیں ٹیلنٹ کے صحیح معنی نہیں معلوم اور نہ ہی انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ ٹیلنٹ پول ملک میں کہاں موجود ہے-

چناچہ ہمارے پاس ایک ایسا کرکٹ بورڈ ہے جو کئی سالوں سے وکٹ کیپر بیٹس مین ڈھونڈ رہا ہے- لیکن اس نے اپنی تلاش کو صرف اکمل گھرانے تک ہی محدود رکھا ہوا ہے-

یہ عمران فرحت کو ہر ٹورنامنٹ میں اس امید کے ساتھ منتخب کرتا ہے کہ اسکا اوپننگ ٹیلنٹ، رفتہ رفتہ سامنے آۓ گا- یہ ایک کھلاڑی کو دوسرے کھلاڑی اور کھلاڑیوں کے ایک گروپ کو دوسرے گروپ سے بھڑا کر انکی لاکر روم کی لڑائی، کھیل کے میدان میں دیکھتا ہے-

تو پھر کون یہ فیصلہ کرے گا کہ پاکستانی کرکٹ کے لئے کیا بہتر ہے؟

پاکستانی صدر، پاکستان کرکٹ بورڈ کے سر پرست اعلیٰ ہیں- ان کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن کے زمانے میں چند ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ایک سنکی، پژمردہ بوڑھے شخص، یا ایک بینکر، ایک بیوروکریٹ، کسی رٹائرڈ یا سرونگ آرمی جنرل، یا کسی ڈاکٹر کو بورڈ کا سربراہ مقرر کر دے-

وہ ایوان صدر میں شعیب ملک اور انکی انڈین ٹینس سٹار بیوی 'ثانیہ مرزا' کا استقبال کرتے ہیں- اور اس طرح شعیب ملک، جسے مسلسل خراب کار کردگی، نظم و ضبط کی خلاف ورزی، اور مالیاتی بدانتظامی کی وجہ سے ٹیم سے خارج کر دیا گیا تھا ، دوبارہ ٹیم میں شامل ہونے کا اہل ہو گیا-

کھلاڑیوں کی تمام مجرمانہ سرگرمیاں، گالم گلوچ، منشیات کی اسمگلنگ، میچ اور سپاٹ فکسنگ وغیرہ کو ناصرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ جب تک آئی سی سی انکی گردن نہ مروڑے، ان الزامات کی تحقیق بھی نہیں کی جاتی-

یہاں تک کہ غیر ملکی عدالتوں میں میرا اور آپ کا روپیہ لگا کر انکا دفاع کیا جاتا ہے ( ہم نے یو اے ای کی جیل سے محمد آصف کو نکلوانے کے لئے ایک ملین درہم ادا کیا، جسکو اخباری رپورٹ کے مطابق منشیات کی تحویل کے الزام میں جیل بھیجا گیا تھا)-

لیکن کرکٹ ہمارا کھیل ہے- ہم اس بورڈ کو مضحکہ خیز حد تک کثیر تنخواہ، وظائف اور رعایتیں فراہم کرتے ہیں، جو انکی ذمہ داریوں کے مقابلے میں شرم ناک حد تک زیادہ ہے-

ہم کھلاڑیوں کو پیسے دیتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پر ہماری نمائندگی کریں اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم انہیں اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں اور انکو خوش کرنے کے لئے اسٹیڈیم بھر دیتے ہیں-

اس ملک میں کرکٹ کا پورا ڈھانچہ صرف ہماری وجہ سے وجود رکھتا ہے- ہمارے جوش کی وجہ سے، ہمارے پیسے کی وجہ سے اپنا وجود رکھتا ہے- چناچہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم پی سی بی کی کرکٹ ٹیلنٹ تلاش کرنے اور اسکو محفوظ کرنے کے لئے رہنمائی کریں-

یہاں کچھ رہنما نکات تجویز کے گۓ ہیں جن میں آپ بھی اضافہ کر سکتے ہیں:

1. ٹیلنٹ کا مطلب ہے کرکٹ کھیلنے کا ٹیلنٹ، یہ نہیں کہ جو بھی بال آۓ اسے آنکھیں بند کر کے یا بنا سوچے سمجھے زور دار ہٹ لگایا جاۓ، یا کرکٹ کا سامان بنایا اور بیچا جاۓ-

آج کے نوجوان کھلاڑیوں کے لئے رول ماڈل کی مثال کے طور پر ہمیں جاوید میانداد کے پاس جانا ہوگا جو ایک مکمل اور ذمہ دار کرکٹر تھا- جو نہ صرف ایک بہترین بیٹس مین تھا بلکہ اس زمانے میں جب فیلڈنگ کو کرکٹ میں کوئی خاص اہمیت نہیں حاصل تھی تب وہ فیلڈنگ کی جان ہوا کرتا تھا- اس کے بعد سے اب تک ہمیں صرف بولر اور بیٹس مین ملے ہیں، ایک کرکٹر نہیں ملا-

2. کرکٹ میں سارا کام رنز بنانے کا ہے- یہ شروع ہوتا ہے اوورز کی مخصوص تعداد میں، مطلوبہ تعداد کے رنز بنانے پر اور ختم بھی اسی پر ہوتا ہے- اگر آپ رنز، مطلوبہ رفتار کے ساتھ نہیں بنا سکتے تو ٹیم میں آپ کے لئے کوئی جگہ نہیں-

فی الحال کھلاڑیوں کی آدھی تعداد بیٹنگ نہیں کر سکتی کیوں کہ وہ خود کو یا تو بولر سمجھتے ہیں یا پھر وکٹ کیپر- اب اور نہیں- ڈریم ٹیم کو بیٹنگ کرنا ہوگی، رنز بنانا ہونگے، آخری کھلاڑی تک-

آپ کے لئے رعایتیں بہت کم ہونگی- آپ کو محمد عرفان کی طرح بیٹنگ کی اجازت صرف اسی صورت میں ہو گی، اگر آپ وسیم اکرم سے اچھی بولنگ کر سکتے ہوں-

3. ہمارے بیٹس مین یا تو آفریدی یا پھر مصباح کے طریقہ کار کی تقلید کرتے ہیں- کبھی کبھار دونوں کی ایک ہی اننگ میں- جیسے 30 بولوں پر 6 رن بنانا اور پھر آگے بڑھ کر ایک بڑا چھکا لگانے کی کوشش کرنا، اور اس کے نتیجے میں پانچ اوور اور ایک وکٹ ضائع کر دینا-

آفریدی اور مصباح محض دماغی حالتوں کا نام ہے، ایک ضرورت سے زیادہ عجلت پسند اور شو باز ہے، جب کہ دوسرا، تکلیف دہ حد تک سست- اور یہ دونوں ہی اپنے پاؤں پر خود کلھاڑی مارنے کے مترادف ہیں- اسی وجہ سے جدید، محدود اوورز والی کرکٹ کے لئے فضول ہیں-

ہمیں ایسے کرکٹرز کی ضرورت ہے جو وقت پڑنے پر اپنا بہتر دفاع کر سکیں اور جب ضرورت پڑے تو بے خوفی کے ساتھ حملہ بھی کر سکیں- اب اس طرح مذکورہ بالا دونوں طریقہ کار کی پیروی کرنے والے کھلاڑی خود بخود نا اہل ہو جاتے ہیں-

4. اس سے قطع نظر کہ ہم کرکٹ کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں، یہ بہرحال ایک کھیل ہے، جس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے- اور اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کھلاڑی جزوی طور پر ہمیں تفریح مہیا کرتے ہیں-

وہ کھیل میں اپنی مہارت کے ذریعہ ہمیں محظوظ کرتے ہیں- وہ بین الاقوامی پلیٹ فارم کو اپنی مہارت اور جدت کے مظاہرے کے لئے استعمال کرتے ہیں- سست اور مشکل ترین کھیل کے دوران بھی ایک بیٹس مین، اپنے تماشائیوں کو خوش کرنے کے لئے، کوئی ایسی بال ڈھونڈ ہی لیتا ہے کہ جس پر وہ زوردار شاٹ لگا سکے-

ایک فیلڈر، ایک ناممکن کیچ پکڑ ہی لیتا ہے اور ایک وکٹ کیپر، تماشائیوں کے جوش وخروش کے زیراثر وکٹ اڑانے کا حیرت انگیز کمال دکھا ہی دیتا ہے- اگر کھلاڑی اپنے کھیل سے لطف اندوز ہو رہا ہے، اور مسلسل ہو رہا ہے، تو وہ آپ کو تفریح فراہم کر رہا ہے-

5. جسمانی تندرستی اچھی چیز ہے، لیکن کرکٹ، دماغ کا کھیل ہے- یہ ایک بیٹس مین اور 11 مخالفوں کی قوت ارادی کا ٹکراؤ ہے- اور جیسے ہی کمزور سائیڈ اپنے مخالف کے تسلط کو تسلیم کرنا شروع کر دیتی ہے، میچ ختم ہو جاتا ہے-

اس کے لئے ہمیں ایسے نوجوان چاہییں جن کے پاس دماغ بھی ہو- جن کی قوت ارادی مضبوط ہو اور جن میں جوش اور اعتماد کا جذبہ ہو-

"کرکٹ کے میدان میں ہمیں اٹھارہ سالہ مرد چاہییں، 30 سالہ لڑکے نہیں-"

6. ان سب سے پہلے، پی سی بی کی کھلاڑیوں تک رسائی ہونی چاہیے اور انھیں عوام کے سامنے جوابدہ- اسے چلانے والے کرکٹر، کرکٹ کے مداح اور پیشہ ور منتظم ہونے چاہییں- زرداریز، مشرفس اور ان کے چمچے نہیں، وہ اپنا کھیل کھیلیں اور ہمارا کھیل ہم پر چھوڑ دیں-


مسعود عالم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے مصنف، کالم نگار اور صحافت کے تربیت کار ہیں-

ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (2) بند ہیں

Israr Muhammad Jun 29, 2013 03:04pm
آپ کی تمام باتوں سے اتفاق هے لیکن آپ ایک بات بول رہے هیں اور وه هے ملک حالت جسکی وجہ سے ریاست کا هر شعبہ تنزلی کا شکار هے اور اس میں کھیل کا شعبہ بھی شامل هے 2009 سے کوئی ٹیم پاکستان نہیں آئی جسکی وجہ سے کھلاڑیوں کو اپنے ملک میں اپنے مہارت دکھانے کا موقعه نہیں مل رہا اوپر سے هر کھیل میں سیاسی مداخلت نااہلی اور بدعنوانی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے کھیلوں کو شدید نقصان پہنچ چکا هےاور نقصان جاری هے جب تک ملکی خالات درست نہیں هوتے بہتری کی توقع بے کار هے
ali zaman Jun 29, 2013 07:34pm
hundred percent agree with you boss