شام: ہسپتال پر فضائی کارروائی، سیکڑوں نوزائیدہ بچے ہلاک

اپ ڈیٹ 30 جولائ 2016
شام کے صوبے ادلب میں ہسپتال پر ہونےوالے فضائی حملے میں متعدد افرادہلاک ہوگئے — فوٹو: بشکریہ 'سیو دا چلڈرن' ٹوئٹر اکاؤنٹ
شام کے صوبے ادلب میں ہسپتال پر ہونےوالے فضائی حملے میں متعدد افرادہلاک ہوگئے — فوٹو: بشکریہ 'سیو دا چلڈرن' ٹوئٹر اکاؤنٹ

بیروت: شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں ایک ہسپتال پر فضائی کارروائی کے نتیجے میں سیکڑوں نوزائیدہ بچوں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوگئے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق فضائی کارروائی 'سیو دا چلڈرن' نامی این جی او کے تحت چلنے والے زچگی ہسپتال پر ہوئی۔

شام میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے برطانوی مانیٹرنگ گروپ کا کہنا ہے کے حملے میں النصرۃ فرنٹ، جس نے حال ہی میں نام تبدیل کرکے جبہت فتح الشام رکھا ہے، کے اراکین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

'سیو دا چلڈرن' نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ 'صوبہ ادلب میں ہسپتال پر ہونے والے فضائی حملے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں'، بمباری ہسپتال کے داخلی حصے پر کی گئی۔

تنظیم نے ہسپتال پر ہونے والے حملے کے بعد بنائی جانے والی ایک ویڈیو بھی اپنے ٹوئٹ میں شیئر کی ہے۔

خیال رہے کہ یہ ہسپتال صوبہ ادلب کے مضافاتی علاقوں کیلئے زچگی کی سہولیات فراہم کرنے والا واحد ہسپتال ہے۔

تنظیم کے مقامی میڈیا مینجر الون میک ڈونلڈ نےعلیحدہ بیان میں کہا کہ 'ابتدائی رپورٹس کے مطابق حملے میں مریضوں اور اسٹاف سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے تاہم ان کی حتمی تعداد موصول نہیں ہوسکی۔

برطانوی گروپ نےدعویٰ کیا ہے کہ حملے میں سابقہ النصرۃ فرنٹ کی اہم شخصیت بھی ہلاک ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ 'سیو دا چلڈرن' کا متاثر ہونے والا ہسپتال ماہانہ 1300 سے زائد خواتین کا چیک اپ جبکہ ماہانہ 700 بچوں کی پیدائش کے باعث علاقے کا سب سے بڑا ہسپتال سمجھا جاتا ہے۔

'سیو دا چلڈرن' کی شامی ڈائریکٹر سونیا خوش نے ایک علیحدہ بیان میں کہا ہے کہ صوبہ حلب میں ایک لاکھ سے زائد بچے پھنسے ہوئے ہیں اور دنیا اس وقت ان کے معاملے سے صرف نظر نہیں کرسکتی جب ان پر بم گرائے جارہے ہو اور انھیں طبی سہولیات بھی میسر نہ ہو۔

مزید پڑھیں: شام: فضائی کارروائیوں میں 51 شہری ہلاک

شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے دوران 2011 میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی، جس کے بعد سے گزشتہ 5 سال میں 2 لاکھ 80 ہزار افراد اس جنگ کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں شامی اپنے گھر بار چھوڑ کر اطراف کے ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔

اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس کے مطابق شام میں 5 سال سے جاری خانہ جنگی میں 11 ہزار سے زائد بچے ہلاک ہو ئے ہیں جن میں سے سینکڑوں کو دور مار بندوقوں یا اسنائپر گنز سے مارا گیا۔

جون 2014 میں شام اور عراق کے ایک بڑے رقبے پر شدت پسند تنظیم داعش نے قبضہ کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے ابوبکر البغدادی کو اپنا خلفیہ مقرر کیا تھا، داعش کے خلاف شام اور روسی اتحاد کے علاوہ امریکا اور اس کے حامی ممالک فضائی کارروائی کر رہے ہیں، دوسری جانب داعش مخالف القاعدہ کی حامی النصرہ فرنٹ سمیت مختلف چھوٹے گروہ بھی شام کے دیگر علاقوں پر قابض ہیں۔

شام میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے مذاکراتی عمل بھی شروع کیا گیا، مذاکراتی عمل کے دوران فروری میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا لیکن اس جنگ بندی کا اطلاق داعش اور القاعدہ پر نہیں کیا گیا۔

ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ شام میں جاری کشیدگی کے باعث یہاں کے شہریوں کو ادویات اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں