لاہور: پاکستان میں پاک ترک اسکولز کی انتظامیہ نے 28 اسکولز اور کالجز کے ترک پرنسپلز کو عہدے سے ہٹادیا جبکہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی تحلیل کردیا گیا ہے جس میں ترک باشندوں کی بھی نمائندگی تھی۔

حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اس اقدام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاک ترک اسکول سسٹم کا کنٹرول کسی دوسری آرگنائزیشن کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

وفاقی حکومت میں موجود ایک ذریعے نے بتایا کہ ترک حکومت نے تجویز دی ہے کہ ان اسکولوں کا انتظام ایک غیر ملکی این جی او کے سپرد کردیا جائے جس کے اردگان انتظامیہ کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک ترک اسکولز غیر یقینی صورتحال سے دوچار

اسکولز سسٹم کے ایک سینیئر عہدے دار نے بتایا کہ ترکی کے وہ شہری جو پہلے پاک ترک اسکولز میں انتظامی عہدوں پر فائز تھے اب اساتذہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیں گے۔

پاک ترک اسکولز اب بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم (این جی او) پاک ترک انٹرنیشنل ایجوکیشن فائونڈیشن کے تحت رجسٹرڈ نہیں رہے اور اب وہ مقامی تنظیم پاک ترک ایجوکیشن فائونڈیشن کے زیر انتظام کام کریں گے۔

عہدے دار نے مزید بتایا کہ ان اسکولز کا انتظام چلانے کیلئے چھ ارکان پر مبنی نیا بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دیا گیا ہے جس میں کوئی ترک شہری شامل نہیں۔

واضح رہے کہ دورے پر اسلام آباد آنے والے ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو سے پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک ترک اسکولز کے نیٹ ورک کی تحقیقات کرے گا۔

ترکی نے جولائی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے پیچھے امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور اس نے پاکستان سے بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ گولن سے وابستہ تعلیمی اداروں کو بند کرے۔

مزید پڑھیں:پاک-ترک اسکولوں کا عدالت سے رجوع

اس موقع پر ترک وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ' یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گولن کی تنظیم سے پاکستان سمیت کئی ممالک میں ادارے چلارہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ تنظیمیں جس ملک میں بھی ہیں اس کی سلامتی اور استحکام کیلئے خطرہ ہیں اور ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

ادارے کے سینئر عہدے دار کا کہنا ہے کہ اسکولز سسٹم میں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلی کے بعد یہ بعد خارج از امکان نہیں کہ اسکولوں کو بند کردیا جائے یا پھر ان کا انتظام حکومت کی حمایت یافتہ کسی اور تنظیم کے حوالے کردیا جائے۔

واضح رہے کہ پاک ترک اسکولز اور کالجز کے نیٹ ورک کا قیام 1995 میں اس غیر ملی این جی او کے تحت عمل میں آیا تھا جو ترکی میں رجسٹرڈ تھی۔

اسکول کے سینیئر عہدے دار نے بتایا کہ ابتداء میں پاکستان میں عالمی معیار کے کیمپس کے قیام کیلئے ترکی سے فنڈز آتے تھے لیکن گزشتہ 15 برس سے ادارہ اپنے اخراجات کیلئے فنڈز خود اکھٹے کررہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاک ترک اسکولز نیٹ ورک 35 فیصد طلبا کو مفت تعلیم اور قیام و طعام کی سہولت فراہم کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ذہین طالب علموں کو بیرون ملک تعلیم کیلئے اسکالر شپ بھی دی جاتی ہیں۔

28 اسکولز اور کالجز کا یہ نیٹ ورک لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان ، کراچی، حیدرآباد، خیرپور، جامشورو اور کوئٹہ میں پھیلا ہوا ہے جس میں 1500 ملازمین ہیں اور ان میں سے 150 ترک شہری ہیں، ان تعلیمی اداروں میں مونٹیسری سے اے لیول تک 11 ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔

پاک ترک اسکولز میں کام کرنے والے ترک شہریوں کو نکالنے کے حوالے سے حکومت کو ترک حکام کی جانب سے شدید دبائو کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان فتح اللہ گولن کے تمام ادارے بند کرے، ترکی

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ان اسکولز سے وابستہ ترک شہریوں کے پاس پاکستان کا ویزا موجود ہے ، ان میں سے کچھ کے ویزے کی معیاد ختم ہونے میں ایک سال ہے جبکہ بعض نے اس میں توسیع کی درخواست بھی دے رکھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسکولز کے ترک اسٹاف کو یہ خدشہ ہے کہ اگر وہ ترکی واپس گئے تو انہیں اردگان انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے کہ کیوں کہ پاک ترک اسکولز پہلے جس این جی او سے رجسٹرڈ تھے اس کے اردگان کے سیاسی مخالف فتح اللہ گولن سے روابط تھے۔

15 جولائی کو ہونے والی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک حکومت نے گولن کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔

پاک ترک اسکولز کے ترک ملازمین کے ویزا کے حوالے سے جب دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

اسکولز کی انتظامیہ نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کررکھی ہے جس میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ حکومت کو کسی بھی ایسے غیرقانونی اقدام سے روکنے جس کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے مستقبل پر کوئی آنچ آئے۔

پاک ترک اسکولز کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال سے والدین بھی پریشان ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی تبدیلی سے پڑھائی کا معیار بھی متاثر ہوگا۔


تبصرے (0) بند ہیں