اسلام آباد: پاک-ترک اسکول نیٹ ورک نے پاکستان کے 10 شہروں میں قائم 28 برانچوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں سے بچنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملک میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد پاکستان سے پاک-ترک اسکولوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ ترکی میں گذشتہ ماہ 15 جولائی کی رات فوج کے ایک باغی گروپ کی جانب سے ملک میں بغاوت کی ناکام کوشش کے دوران جھڑپوں میں 246 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ترکی نے اس بغاوت کا الزام امریکا میں خودساختہ جلاوطنی کاٹنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان فتح اللہ گولن کے تمام ادارے بند کرے، ترکی

فتح اللہ گولن، ترک صدر رجب طیب اردگان کے سیاسی حریف سمجھے جاتے ہیں اور ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی نے گولن کے اسکولوں کے نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

واضح رہے کہ فتح اللہ گولن کی تحریک 'حزمت' کہلاتی ہے، جو صوفی ازم کی طرز پر مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تعلیم دیتی ہے، اس تحریک کے تحت امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں سیکڑوں تعلیمی اور سماجی خدمات کے ادارے کام سرانجام دے رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر آنے والے ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ہم پاک-ترک اسکولوں میں زیرِ تعلیم طالب علموں کے مستقبل کو بچانے کے لیے کام کررہے ہیں۔

ڈان کو پاک-ترک اسکول نیٹ ورک کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے بتایا کہ ترک حکومت نے المعارف ایجوکیشنل نیٹ ورک متعارف کروایا ہے جو پاکستان میں پاک-ترک اسکولوں کی جگہ لے گا۔

اگرچہ انہوں نے اعتراف کیا کہ اسکول کی انتظامیہ فتح اللہ گولن کے نظریئے سے متاثر ہیں، تاہم انہوں نے اس بات سے انکار کردیا کہ پاکستان میں ان اسکولوں کو چلانے میں ترک مبلغ کا کردار ہے۔

پاک-ترک اسکول نیٹ ورک کے وکیل حافظ ایس رحمان نے عدالت کو بتایا کہ ان اسکولوں کا بورڈ آف ڈائریکٹرز 4 پاکستانی اور 4 ترک شہریوں پر مشتمل ہے اور ان اسکولوں کی انتظامیہ سے فتح اللہ گولن کا کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان اسکولوں کو قوانین کے مطابق متعلقہ ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ کرایا گیا ہے اور بچے متعلقہ اداروں سے اجازت لینے کے بعد یہاں داخلہ لیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'فتح اللہ' کے خلاف پاکستان کا تعاون حاصل: ترکی

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں پاک-ترک اسکولوں کی 28 برانچوں میں 10 ہزار سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں اور ان اسکولوں کے بند ہونے سے ان طالب علموں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق نے وکیل حافظ ایس رحمان سے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے ان اسکولوں کے خلاف کوئی نوٹیفیکیشن جاری کیا یا کوئی اقدامات کیے، جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے ان اسکولوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جانے کے قومی امکانات موجود ہیں۔

وکیل حافظ ایس رحمان نے عدالت سے استدعا کہ وہ حکومت کو اسکولوں کے خلاف غیر قانونی اقدامات کرنے سے روکیں۔

تاہم جسٹس فاروق نے وکیل کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کو وزارت داخلہ اور امور خارجہ سے اس حوالے سے ہدایت لینے کا حکم دے چکے ہیں اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کا جواب آنے تک اس کیس میں مزید پیش رفت نہیں کی جاسکتی'۔

بعدازاں اس مقدمے کی سماعت جمعہ 5 اگست تک ملتوی کردی گئی۔

یہ خبر 4 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں