اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی 'خوفناک' سائبر کرائم بل کو ناکام بنانے کیلئے متحرک ہوگئے اور انہوں نے پارلیمنٹ میں حکومت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ قانون بنانے سے قبل اس پر نظر ثانی کرلی جائے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے سائبر کرائم بل پیش کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے فوری طور پر اس پر اعتراضات اٹھادیے۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم : آپ کو کیا معلوم ہونا چاہئے

نوید قمر نے ایوان کو بتایا کہ نہ صرف سیاسی حلقے بلکہ سول سوسائٹی، انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیاں اور کاروباری گروپس بھی اس بل کے مخالف ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ مجوزہ بل آئین میں درج بنیادی حقوق سے متصادم ہے اور اس بل کے ذریعے آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کے حق کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نوید قمر نے مزید کہا کہ بل کے مطابق 10 سال تک کے بچے کو بھی سزا دی جاسکتی ہے اور اگر ہم نے اپنے بچوں کے آگے بڑھنے اور سیکھنے کی صلاحیتوں پر بیڑیاں ڈالنے کی اجازت دے دی تو یہ مہذب اقدار کے خلاف ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آج تو ملک میں جمہوری حکومت ہے لیکن کل اگر یہ قانون کسی غیر جمہوری حکومت کی جانب سے نافذ کردیا گیا تو ایوان میں موجود کوئی بھی سیاسی جماعت اس سے بچ نہیں سکے گی کیوں کہ اس وسیع قانون کے غلط استعمال کے خدشات موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: متنازع سائبر کرائم بل منظور

نوید قمر نے ایوان کو بتایا کہ جو بھی اس قانون کو نافذ کرے گا اسے مخالفین کی آواز کو دبانے، شہریوں کی جاسوسی کرنے اور ان کے نجی ڈٰیٹا کو دیکھنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ مجوزہ قانون فون کالز کی ریکارڈنگ کو عدالت میں بطور ثبوت پیش کرنے کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے جس کی مثال کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔

سائبر کرائم بل پر ایوان کا کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے بحث روک دی گئی تاہم اس پر آئندہ ہونے والے سیشنز میں مزید بحث جاری رکھی جائے گی۔

یہ خبر 11 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں