کراچی: سندھ میں مدارس کی رجسٹریشن کابل کابینہ سے منظور ہوگیا جس کے بعد صوبے بھر میں موجود مدارس کو نیشنل ایکشن پلان( نیپ) کے تناظر میں قانون کے دائرے میں لایا جائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ مجوزہ بل میں سندھ کی مذہبی درسگاہوں کے حوالے سے پائے جانے والے تمام خدشات کا احاطہ کیا گیا ہے جنہیں نیشنل ایکشن پلان کے مطابق حل کیا جائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ بل کا مسودہ کابینہ نے منظور کرلیا ہے تاہم اس پر نظر ثانی کیلئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کے مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:دینی مدارس کو 'چند مسلم ممالک' سے مالی معاونت حاصل

کمیٹی مسودے کی حتمی منظوری سے قبل مذہبی اسکالرز اور قانونی ماہرین سے رائے لے گی اور 15 روز کے اندر اسے سندھ اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کردیا جائے گا۔

صوبائی کابینہ کا اجلاس وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں سندھ سیکریٹریٹ میں ہوا جس میں مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم سندھ سے شدت پسندی کو جڑ سے ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے نیپ پر اس کی روح کے مطابق عمل ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنا چاہتی ہے جس کے لئے انہیں علماء کا تعاون درکار ہے، حکومت صوبے کے تمام مدارس کی ضروری معاونت کرنے کیلئے تیار ہے۔

بعد ازاں میڈیا بریفنگ میں مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ مجوزہ قانون مدارس کی رجسٹریشن اور ہر مدرسے کو ہونے والی فنڈنگ کے ذرائع کا تفصیلی احاطہ کرے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کا مجوزہ بل ستمبر میں ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور اس سے قبل مرتضیٰ وہاب کی سربراہی میں کمیٹی اس کا جائزہ لے گی۔

حکام کا کہنا ہے کہ مجوزہ بل میں مدارس کے ہر پہلو کو شامل رکھا گیا ہے جس میں ان کا نصاب، طلبا کی تعداد وغیرہ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:مدارس کے خلاف سازش کی مزاحمت کریں گے: مولانا حیدری

مجوزہ قانون کے تحت مدرسے کے منتظم کو ایک فارم بھرنا ہوگا اور جومعلومات اور دستاویز منتظم کو فراہم کرنی ہوں گی ان میں مدرسے کا مقام، متعلقہ ڈپٹی کمشنر سے حاصل کردہ این او سی، زمین کا نام جس پر مدرسہ تعمیر کیا جائے گا اور وزارت داخلہ کی جانب سے کلیئرنس سرٹیفیکٹ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مدرسے کی تعمیر سے قبل متعلقہ بلڈںگ کنٹرول اتھارٹیز کی جانب سے بھی انتظامیہ کو کلیئرنس حاصل کرنی پڑے گی۔

حکام کے مطابق انتظامیہ کو مدرسے میں زیر تعلیم طلبا اور ان کے آبائی علاقوں کی تفصیلات بھی فراہم کرنی ہوں گی اور بیرون ملک سے آنے والے طالب علموں کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنی حکومت کا این او سی پیش کریں۔

اس کے ساتھ ساتھ مدرسہ کی انتظامیہ کو فنڈنگ کی تفصیلات کا تبادلہ بھی کرنا ہوگا۔

کابینہ کے وزراء نے کراچی سے جیکب آباد تک ہائی وے اور سڑکوں کے اطراف تعمیر ہونے والے مدارس پر تشویش کا بھی اظہار کیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی تنازع کی صورت میں مدارس کی انتظامیہ اپنے طالب علموں کو سڑک پر لاکر ہائی وے کو بلاک کرسکتی ہے جس میں نیشنل ہائی وے بھی شامل ہے۔

حکام کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں تھر میں متعدد کالعدم تنظیموں کی جانب سے مدارس اور 'دسترخوانوں' کے قیام پر بھی غور کیا گیا۔

کابینہ نے متعلقہ حکام اور اداروں کو ہدایت دی کہ وہ اس حوالے سے رپورٹ مرتب کرکے پیش کریں تاکہ حکومت کوئی فیصلہ لے سکے۔

حکام کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان متعارف ہونے کے بعد صوبائی ایپکس کمیٹی نے ان مدارس کی نشاندہی کا سلسلہ شروع کردیا تھا جن پر کالعدم تنظیموں سے روابط اور غیر واضح ذرائع سے فنڈنگ کا شبہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مدارس اصلاحات:پختونخوا حکومت،مدرسہ حقانیہ کے درمیان معاہدہ

سندھ حکومت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں 52 ایسے مدارس کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے کالعدم تنظیموں سے روابط ہیں اور ان میں سے نصف کے قریب مدرسے کراچی میں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں 13 ہزار کے قریب مذہبی درسگاہیں ہیں جن میں سے نصب تعداد بھی رجسٹرڈ نہیں۔

کابینہ سے منظور ہونے والے دیگر بل

سندھ کابینہ نے سندھ ٹرانسپیرنسی اور رائٹ ٹو انفارمیشن بل کی بھی منظوری دی جسے نظر ثانی کیلئے متعلقہ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے گا۔

اس کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں کی کارکردگی اور ان کے اکائونٹس کے آڈٹ کیلئے سوشل ویلفئر ایجنسی آرڈیننس میں ترمیم کی بھی منظوری دی گئی۔

سندھ کابینہ نے سندھ آرمز ایکٹ بل کی بھی منظوری دی جسے اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل متعلقہ کمیٹی کے پاس نظر ثانی کیلئے بھیجا جائے گا۔

کابینہ کے اجلاس میں سندھ گورنمنٹ رولز آف بزنس بل میں ترمیم، اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن کے ٹرمز آف ریفرنس، 'پناہ' شیلٹر ہومز اور ہتک عزت کے حوالے سے بل بھی زیر غور آئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہتک عزت کے قوانین پر نظر ثانی کی جائے گی اور ہتک عزت کے طویل عرصے سے زیر التواء کیسز کو جلد از جلد نمٹانے کیلئے سمری ٹرائل کورٹس یا ٹریبونل کے قیام کا قانون بھی لایا جائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت ایک اور مسودہ قانون پر کام کررہی ہے جس کے تحت صوبے بھر کی مساجد کو جمعے کے یکساں 'خطبے' کا پابند بنایا جائے گا۔

یہ خبر 21 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں